دوڑپیچھے کی طرف اے گردشِ ایام ت

’’دوڑپیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو ‘‘
تیرے ہوتے ہوئے جنم لیا ہو تا
تیرے ہوتے ہوئے میں مر گیا ہوتا
لوٹ جا عہد نبی ﷺ کی سمت اے رفتار جہاں
پھر میری پسماندگی کو ارتقا ء درکار ہے
جناب صدر !
دوڑ پیچھے کی طرف اے گرد شِ ایام تو کہ آج پھر میری اذان کو روح بلالی کی تلاش ہے۔ آج پھر میری اکھیوں میں پیا ملن کی آس ہے۔ میری پلکیں اسی راہ کی گرد چننا چاہتی ہیں جس راہ کی مٹی نے میرے محسن کے قدم چومے تھے۔ میری گلی کو چوں کی راتیں ، نیندمیں چھوڑ کر رعایا کی خبر گیری کر نے والے عمر فاروقؓ کو ترس گئیں ہیں۔ اے گردشِ ایا م دوڑ اور لے چل مجھے حضرت صفیہؓ کے خیمے کے پاس کہ میں انھیں خیمے کی چوب اکھاڑ نے میں مدد دے سکوں۔ اے گرد شِ ایام دوڑ اور لے چل مجھے معرکہ حق و باطل کے بیچ کہ میں اپنی اوڑھنی سے مجاہدین اسلام کی مرہم پٹیاں کر سکوں۔ اے گر دشِ ایام دوڑ اور لے چل مجھے اس دور میں جہاں عجمی اور عربی میں کوئی تفاوت نہیں۔ جہاں گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں۔ مجھے لے چل اس دور میں جہاں بڑائی کی بنیاد تقویٰ ہوا کر تا ہے۔
جہاں پر چوری کر نے والے کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں۔
جہاں پر اپنے حصے سے زائد چادر لینے کے شک میں خلیفہ وقت جوابدہ ہو ا کر تا ہے۔ مجھے لے چل اس سادگی کے دور میں جہاں امارت کی علامت سمجھ کر امراء کی ڈیوڑھیاں ڈھادی جاتی ہیں۔ مجھے لے چل اس شجاعت کے دور میں جہاں الجنت تحت ظلال السیوف کے ایمان والے ماں کے قدموں تلے جنت کو فر اموش نہیں کرتے ۔ مجھے لے چل اس ا طاعت والے دور میں جہاں نیل جوان عورتوں کا نذرانہ لینا بند کر دیتے ہیں۔ مجھے لے چل اس عنایت والے دور میں جہاں ہزاروں میل دور حضرت ماریہؓ مسجد نبوی کے ممبر پر موجود خطیب کی نظروں میں ہوتے ہیں۔ مجھے لے چل اس صداقت والے دور میں جہاں ایفائے عہد کے لئے ایک ہی جگہ تین دن قیام کیا جاتا ہے۔ اے گردشِ ایام دوڑپیچھے کیطرف جہاں فضائے بدر کی صورت ابراہیم ؑ کا ایمان زندہ ہے۔ جہاں 313ہزار کے مقابل سینہ تان چکے ہیں۔ جہاں بغیر خون بہائے شہر فتح کر لئے گئے ہیں۔ جہاں عورتیں بھی مقدم ہیں۔ جہاں مرد بھی معتبر ۔
جناب صدر! آج کے دور کی بصیرت نے میری بصارت اندھی کر چھوڑی ہے۔ میرا ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ ڈروانا اور بھیانک ہے۔ رشتوں کا تقدس پامال ہو چکا۔ بیٹی حقوق کی جنگ میں اپنے ہی باپ کو عدالت کے کٹہر ے میں کھینچ لائی۔ چادر زینب کے تقدس کی امین نے سارے پردوں کو چاک کر کے مرد کے شانہ بشانہ ہو نے کو اپنی عظمت گردان لیا۔ اپنی روایت اور مذہبی اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر وہ اپنے لباس میں بے لباس گھومتی ہے۔ اسے نمائش کی وہ چاٹ لگ گئی کہ چند اخباری تصویروں کے لئے وہ کسی بھی سیاسی میراتھن میں دوڑ سکتی ہے اور حقوق انسانی کی ڈفلی پر کوئی NGOاسے بہکاکر کسی بھی طرح نچوا سکتی ہے۔ اس کا دوپٹہ اس کے سر سے اتر کر گلے کا پھندا بن چکا ہے۔ حیا کی لالی میڈورا کے غاروں تلے جا چھپی ہے۔
جنابِ صدر! ہمیں نہیں چاہیے وہ نظام جو عورت کو کاروبار کا اشتہار بنا کر رکھ دے ۔ ہمیں نہیں چاہئے وہ ترقی جو ترقی کے نام پر پردے کو کاٹتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں نہیں چاہیے وہ انصاف جو مختار ائیں پیدا کر تا ہے۔ ہمیں نہیں چاہیے وہ حکومت جو طیارے تباہ ہو نے سے ہی اترتی ہے۔ ہمیں نہیں چاہیے وہ نصاب جو ہمیں اپنے مذہب سے بے گانہ کر دے۔ نہیں چاہیے وہ کتاب جس کے لفظ مغربی اخلاقیات کے شہر ے سے پتھرا ئے ہوتے ہیں۔ نہیں چاہیے وہ قلم جو چند پیسوں کے عوض بستی قصیدے لکھتا ہے۔ نہیں چاہیے وہ معاشرہ جس میں عدل پیسوں کا محتاج ہے۔ نہیں چاہئے وہ طریقہ امتحان کہ امتحان سے پہلے ہی جس کے سوالنامے ردی میں بک جاتے ہیں۔ نہیں چاہیے وہ شہرت جو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہ کر سکے۔ نہیں چاہیے وہ شریعت جو مسجدوں میں بم پھٹا نے کا درس دیتی ہے۔ نہیں چاہیے وہ حمیت جو المسلم اخوالمسلم کے نعرے سن کر بھی بیدار نہیں ہوتی ۔ نہیں چاہیے وہ نصیحت جو عمل سے خالی ہے۔ نہیں چاہیے وہ علم جس کا داعی خود اندھا ہے۔
جناب صدر! آنے والے وقت کے سرابوں میں الجھا کر ہماری گزشتہ منزل بھی ہم چھین لی گئی۔ ہم کس معاشرتی ترقی کی بات کر تے ہیں ؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا کہ جس میں باپ کی طرف محبت کی نگاہ کر نے والوں کو حج کے ثواب کا عندیہ ملے یا پھر یہ معاشرہ اچھا ہے جس میں باپ کو کچرے کا تھیلا سمجھ کر گلی کے نکڑ کے تھڑے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت رکھی گئی تھی۔ یا پھر یہ زمانہ اچھا ہے جس میں بوڑھی ماں کو اولڈ پیپلز ہوم کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ ہم کس عدل و انصاف کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں جرم کی سزا بلا امتیاز حسب و نسب دی جاتی ہے یا پھر یہ زمانہ اچھا ہے جس میں اقربا ء کی کو تاہیوں کو مصلحتوں کی غلاف اوڑھے جاتے ہیں۔ ہم کس اخلاقیات کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں خریدار کو بیچنے سے پہلے مال کے نقائص بیا ن کئے جاتے تھے یا پھر یہ زمانہ اچھا کہ خراب مال پر بہت اچھا کی مہریں لگا لگا کر گاہکوں کو لوٹ لیا جا تا ہے۔ ہم کس جنگ کی بات کرتے ہیں ! کیا وہ زمانہ اچھا تھا جس میں شہر کے شہر بغیر کسی قطرہ خون بہائے فتح کر لئے جاتے ہیںیا پھر یہ زمانہ اچھا ہے کہ ایک جرنیل کے کئے کی سزا میں لاکھوں کی آبادی کو لقمہ اجل بنا دیا جائے۔ ہم کس مذہبی تعصب کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ وہ زمانہ اچھا تھا جہاں مسجد کے تقدس کو پامال کر نے والے بدوی کو معاف کر دیا جاتا ہے۔ یا پھریہ زمانہ اچھا ہے کہ قبروں کو ٹھو کریں مار مار کر حیوانی قوت کا اظہار کیا جا تا ہے۔
ہم کس حسن سلوک کی بات کر تے ہیں؟ کیا وہ زمانہ اچھا تھا کہ جس میں جنگی قیدیوں سے بچوں کی تعلیم کا کام لیا جاتا ہے یا پھر یہ زمانہ اچھا ہے کہ جس میں قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر شکاری کتو ں کے پنچوں میں دے دیا جائے۔ تو زی وقار مجھے کہنا پڑتا ہے ۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں