بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
جناب صدر و معزز خواتین وحضرات آج کا موضوع سخن ہے کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔ اور میں بھی بساط بھر اسی موضوع پر کچھ کہنے کی جسارت کروں گی۔
پیارے دوستو۔
ہمارے ملک کی مشہور شاعرہ پروین شاکر نے لکھا تھا کہ
جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
جی ہاں جناب صدر۔
میں سمجھتی ہوں کہ
جب معلومات کی رسائی اس حد تک ہو کہ بیٹی کو باپ سے زیادہ کمپیوٹر کا علم ہو، جب سمارٹ فون کے کوڈ کھلوانے کے لئے باپ اپنے بچوں سے کہے ۔۔۔بیٹا دیکھنا میرے موبائل کو کیا ہوا۔ جب بچے والدین سے نت نئے بہانوں سے کھلونے لینے کی خواہش پوری کروالیں۔۔۔تو کہنا پڑتا ہے کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔
جناب صدر
عموما دیکھا گیا ہے کہ چالاک کا مطلب مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا ، بلکہ ایسی تیزی سمجھا جاتا ہے جو نقصان دہ ہے۔ مگر میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمارے عہد کے بچے ایسی مشام تیز رکھتے ہیں جو صحراوں میں آہوئے تاتاری کا پتا دیتی ہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ جوانوں کو پیروں کو استاد کر۔۔۔مجھے اپنے عہد کے بچوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حضرت اقبال کی دعا پوری ہو گئی۔ اور ان کی یہ خواہش کہ
جوانوں کو میرا سوز جگر بخش دے
میرا عشق ، میری نظر بخش دے
بھی ضروری پوری ہونے کو ہے ۔
اور آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے لیکن
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
اپنے دوست ڈاکٹر جنید کی بیٹی کے لکھی گئی جو سوم جماعت کی طالبہ ہیں۔
جناب صدر و معزز خواتین وحضرات آج کا موضوع سخن ہے کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔ اور میں بھی بساط بھر اسی موضوع پر کچھ کہنے کی جسارت کروں گی۔
پیارے دوستو۔
ہمارے ملک کی مشہور شاعرہ پروین شاکر نے لکھا تھا کہ
جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
جی ہاں جناب صدر۔
میں سمجھتی ہوں کہ
جب معلومات کی رسائی اس حد تک ہو کہ بیٹی کو باپ سے زیادہ کمپیوٹر کا علم ہو، جب سمارٹ فون کے کوڈ کھلوانے کے لئے باپ اپنے بچوں سے کہے ۔۔۔بیٹا دیکھنا میرے موبائل کو کیا ہوا۔ جب بچے والدین سے نت نئے بہانوں سے کھلونے لینے کی خواہش پوری کروالیں۔۔۔تو کہنا پڑتا ہے کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔
جناب صدر
عموما دیکھا گیا ہے کہ چالاک کا مطلب مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا ، بلکہ ایسی تیزی سمجھا جاتا ہے جو نقصان دہ ہے۔ مگر میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمارے عہد کے بچے ایسی مشام تیز رکھتے ہیں جو صحراوں میں آہوئے تاتاری کا پتا دیتی ہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ جوانوں کو پیروں کو استاد کر۔۔۔مجھے اپنے عہد کے بچوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حضرت اقبال کی دعا پوری ہو گئی۔ اور ان کی یہ خواہش کہ
جوانوں کو میرا سوز جگر بخش دے
میرا عشق ، میری نظر بخش دے
بھی ضروری پوری ہونے کو ہے ۔
اور آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے لیکن
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
اپنے دوست ڈاکٹر جنید کی بیٹی کے لکھی گئی جو سوم جماعت کی طالبہ ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں