بے گناہوں کا لہو دریا ہو چلا اور ہماری آنکھ میں ایک آنسو تک نہیں، دنیا کے طاقتور ایک طرف اور مظلوم ایک طرف۔۔۔اور طاقتوروں کی طاقت خاموش لوگ اپنے اپنے مقفل کواڑوں کے پیچھے سرگوشیوں میں ہم کلام کہ ایسا ظلم ہونا نہیں چاہیے۔۔۔مگر اپنی دہلیز سے باہر یہ سب گونگے ہیں، مظلوم کی حمایت میں کوئی بولتا تک نہیں۔ظالم کا ہاتھ پکڑ لینے والے تو کب کے خاک ہو گئے۔۔۔۔ہم ڈری سہمی قوموں کے غلامی آلود ذہنوں والے کسی جبر کے خلاف بھلا کب بولے ہیں۔۔۔بس دل میں برا سمجھ لینے سے ہمارا فرض ادا ہوجاتا ہے تو برلب سڑک صدائے احتجاج کون بلند کرے؟
ایسا ہی تھا آج کا مجمع۔۔۔۔قاتل اسرائیل کے خلاف۔۔امریکی پشت پناہی پر کسی اور کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے اسرائیل کے خلاف۔۔۔وہ جسے حاکم وقت دو طرفہ لڑائی کا نام دیتا ہے۔۔جہاں ایک طرف تین اور دوسری طرف دو سو تیس لاشیں ہیں۔۔۔جہاں ایک طرف نیا بم گرنے کا خوف ہے اور دوسری جانب اسی بم کی آواز نقارہ جشن سمجھی جاتی ہے۔۔۔ایک طرف ملبہ مکانوں کے آنگن میں روکھی سوکھی افطاریوں کا اہتمام ہے اور دوسری جانب پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دشمن کی موت پر رقص۔۔۔
آج کی اس مہذب دنیا میں اتنی بڑی منافقت کس کو ہضم ہو سکتی ہے۔۔۔جو ابھی تک انسان ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور جن کو وقت نے سیاست سکھا دی ہے وہ اپنی مصلحتوں کی حفاظت میں دلائل کی دلدلوں میں دھنسے ہیں۔۔۔۔۔ہر رنگ کے لوگ تھے آج کے جلوس میں۔۔بس میرا رنگ نہیں تھا۔۔۔۔چند ایک چہرے جو کسی تنظیم کے نظم سے بندھے چلے آے تھے۔۔چند عورتیں جن کو خوب پتا تھا کہ ما ں کی کوکھ اجڑتی ہے تو دنیا کا رنگ بدل جاتا ہے۔۔۔۔۔
خوشی اس بات کی ہوئی کہ ابھی انسان زندہ ہیں۔۔۔لوگوں نے ان اموات کو مسلمانوں کی موت سمجھ کر آنکھیں نہیں پھریں۔۔۔جوان لوگوں سے بھرا ہوا یہ مجمع اپنے پورے شعور کے ساتھ اس بھیڑ کا حصہ تھا۔
ابھی مظلوم اور ظالم کا فرق کرنے والے موجود ہیں۔۔۔ابھی تک دوطرفہ جنگ کا نام دیکر لوگوں کی رائے تبدیل کرنے والوں کا جادو سر نہیں چڑھا۔۔ابھی کچھ ہوش باقی ہے۔ابھی کچھ انسان زندہ ہیں۔۔۔۔۔
فلسطین سے اظہار یک جہتی کے جلوس کے موقع پر لکھی گئی چند سطور۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ہی تھا آج کا مجمع۔۔۔۔قاتل اسرائیل کے خلاف۔۔امریکی پشت پناہی پر کسی اور کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے اسرائیل کے خلاف۔۔۔وہ جسے حاکم وقت دو طرفہ لڑائی کا نام دیتا ہے۔۔جہاں ایک طرف تین اور دوسری طرف دو سو تیس لاشیں ہیں۔۔۔جہاں ایک طرف نیا بم گرنے کا خوف ہے اور دوسری جانب اسی بم کی آواز نقارہ جشن سمجھی جاتی ہے۔۔۔ایک طرف ملبہ مکانوں کے آنگن میں روکھی سوکھی افطاریوں کا اہتمام ہے اور دوسری جانب پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دشمن کی موت پر رقص۔۔۔
آج کی اس مہذب دنیا میں اتنی بڑی منافقت کس کو ہضم ہو سکتی ہے۔۔۔جو ابھی تک انسان ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور جن کو وقت نے سیاست سکھا دی ہے وہ اپنی مصلحتوں کی حفاظت میں دلائل کی دلدلوں میں دھنسے ہیں۔۔۔۔۔ہر رنگ کے لوگ تھے آج کے جلوس میں۔۔بس میرا رنگ نہیں تھا۔۔۔۔چند ایک چہرے جو کسی تنظیم کے نظم سے بندھے چلے آے تھے۔۔چند عورتیں جن کو خوب پتا تھا کہ ما ں کی کوکھ اجڑتی ہے تو دنیا کا رنگ بدل جاتا ہے۔۔۔۔۔
خوشی اس بات کی ہوئی کہ ابھی انسان زندہ ہیں۔۔۔لوگوں نے ان اموات کو مسلمانوں کی موت سمجھ کر آنکھیں نہیں پھریں۔۔۔جوان لوگوں سے بھرا ہوا یہ مجمع اپنے پورے شعور کے ساتھ اس بھیڑ کا حصہ تھا۔
ابھی مظلوم اور ظالم کا فرق کرنے والے موجود ہیں۔۔۔ابھی تک دوطرفہ جنگ کا نام دیکر لوگوں کی رائے تبدیل کرنے والوں کا جادو سر نہیں چڑھا۔۔ابھی کچھ ہوش باقی ہے۔ابھی کچھ انسان زندہ ہیں۔۔۔۔۔
فلسطین سے اظہار یک جہتی کے جلوس کے موقع پر لکھی گئی چند سطور۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں