آج بھی انگلی کے گرد اس گرفت کا محسوس باقی ہے، جب پہلی بار ان ہاتھوں نے قلم تھاما، ۔۔سرکنڈے سے تراشی گئی قلم اور گاچنی سے دھلی تختی پر نو آموز کے نو مولود لفظ کیسے ہوں وہ حرف تو کب کے بھول چکے۔۔۔ان لہجوں کی شیرینی آج بھی محسوس کرتا ہوں۔۔جنہوں نے آڑھی ترچھی لکیروں کو الفاظ میں ملبوس کرنے کا ہنر بخشا۔۔۔
وہ میرے استاد جنہوں نے میری زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی، میں دیکھتے ہوئے بھی اندھا تھا کیونکہ وہ تصاویر جو میرے اردگرد سجائی گئی تھیں ان تصاویر کے سب رنگ بے نام تھے، وہ منظر جو میرے اردگرد پھیلے تھے ان کی کیفیت اور ماہیت میرے لئے بالکل اجنبی تھی، کس چیز کو چھونا ہے، کس سے گریز کرنا ہے، کس کو کیا پکارنا ہے اور کس طرح سے پکارنا ہے۔۔۔وہ کیا نہیں ہے جو مجھے سکھایا گیا تھا۔۔۔ایک روتا ہوا بچہ جو اپنی ہر ضرورت کے لئے اس عجیب و غریب آواز کا محتاج تھا، پھر اپنی آشاوں کو بیان کرنے لگا تھا، کچھ بولنے لگا تھا۔۔۔۔۔اور پھر انتہائے کرم یہ ہوئی کہ لکھنے لگا تھا۔۔تو ان ساری نوازشوں کے پیچھے جو محسن تھے استاد کہلائے۔
محترم انور صاحب |
مجھے وہ دن آج تک یاد ہے جب پہلی بار گاوں کے اسکول سے شہر سے سکول میں آیا پہلے ہی دن ایک ساتھی طالب علم سے جھگڑا کر بیٹھا اور جوابا اس کو کو کچھ گالیاں بھی دے ڈالیں۔۔کلاس کا مانیٹر مجھے پکڑ کر استاد صاحب کے پاس لے گیا کہ یہ بچہ گالیاں دیتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہی ہو گا کہ استاد جی مولا بخش اٹھائیں گے اور ہماری خوب دھلائی کریں گے ۔۔
شفیع صاحب |
رانا ظہور علی خان |
سیکھنے کا عمل زندگی میں کبھی نہیں رکتا، استاد بدلتے رہتے ہیں، کبھی انسان آسانی سے سیکھ جاتا ہے اور کبھی مشکل سے، کبھی ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور کبھی ایک نقطےمیں ہی الجھ کر سمے کے سمندر میں غرقاب ہو جاتا ہے۔۔۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے سیکھا کہ استاد صرف وہی نہیں جنہوں نے ہمیں کسی نصابی کتاب کو سمجھنے میں مدد دی بلکہ ہر وہ شخص جس نے زندگی کی کسی روش پر بھی کچھ اثر ڈالا استاد کہلانے کا مستحق ہے۔۔۔محترم انور مسعود صاحب جو اردو کے مشہور شاعر ہیں ان کا طرز بیان ہمیشہ سے میرا استاد رہا ہے، ایسے ہی آپ کی زندگیوں میں بے شمار لوگ ہو سکتے ہیں جن سے کبھی آپ سکول کے ماحول میں نہیں ملے مگر وہ آپ کو کچھ ایسا عطا کر جاتے ہیں جو زندگی بھر آپ کے ساتھ چلتا ہے۔۔۔اس اجنبی استاد کے فرمان کی طرح۔۔۔جو انیس سو چھیانوے میں ایک لمحے کے لئے کسی راستے میں ملا اور اس نے کہا۔۔۔بچے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ہم نے سوچا کوئی مانگنے والا ہو گا اور بہت بعد میں پتہ چلا کہ نہیں وہ تو دینے والا تھا۔۔۔اس ایک شعر سنایا اور پھر چلا گیا
راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہے ہر چیز ایک کوشش ناتمام سے
نوٹ۔
اساتذہ کرام کی یہ تصاویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہیں، اگر کسی کے پاس اچھی تصاویر ہوں تو مجھے بھیج کر شکریہ کا موقع دیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں