سنا ہے گرم پانیوں کی تلاش میں سوویت یونین رسوا ہوا تھا، لیکن اگر اسے خبر ہوتی کے گرم پانی تو یہاں دستیاب ہی نہیں ہے تو کبھی ایسی مہم جوئی نہ کرتا۔۔۔گذشتہ دودنوں سے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے ان کمروں میں مقیم ہوں، جہاں غیرملکی سکالرز، مقامی سکالرز اور خاص مہمانوں کو جگہ دی جاتی ہے، ان کو ایگزیکٹیو سوئیٹ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، ہم یہاں خاص مہمان کیونکر ہوئے یہ کہانی پھر سہی۔۔۔لیکن دودنوں سے ٹھنڈے پانی کو چھو کر ہی نہانے کا کام کرتے آئے ہیں۔۔۔کل شام یہ طے کیا کہ گرم پانی سے نہایا جائے گا ۔۔۔چوکیدار جو خدمتگار کے فرائض بھی سر انجام دیتا ہے۔۔اس کی تلاش کی تو پتہ چلا کہ کے ساتھ ہی گیسٹ ہاوس موجود ہے وہاں موجود ہوسکتا ہے، انہوں نے کہا کے یہ میرا کام نہیں آپ اپنے علاقے کے چوکیدار سے رابطہ کریں، تھوڑی منت سماجت پر وہ مان گیا، گیزر چلا دیا گیا، لیکن گرم پانی نہ آیا۔۔۔گرم پانی کے انتظار میں آنکھ لگ گئی صبح آنکھ کھلی تو ایک چوکیدار سے ملاقات ہوئی وہ ابھی نیند کے خمار تھے ، کہنے لگے کہ آج تک انھوں نے گیزر نہیں چلایا، میں نے ان سے درخواست کی کہ جب وہ بیدار ہو جائیں تو کسی سے رابطہ کر کے پتہ کریں۔۔۔دن چڑھے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا ایک ماچس اور اخبار لے ایئے، وہ ہم ڈھونڈ لائے۔۔گیزر چلانے گئے تو پتہ چلا کہ گیزر تو کام ہی نہیں کر رہا، انہوں نے ایک مفت مشورہ دیا کے ساتھ ہی گیسٹ ہاوس میں ایک باتھ روم ہے جہاں گرم پانی مل سکتا ہے۔۔۔۔سو ابھی ہم تولیا صابن اٹھائے گیسٹ ہاوس کی طرف رواں دواں ہوں گے۔۔۔۔اس عیاشی سے ہم زندگی کے بہت سال محروم رہے۔۔آج یہ بھی مقدر کا حصہ ہونے والی ہے۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد
ہر پاکستانی کی طرح حالات سے سمجھوتہ کرلیا۔۔۔۔سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا تو اب کافی کول محسوس کر رہا ہوں۔۔
آدھے گھنٹے بعد
ہر پاکستانی کی طرح حالات سے سمجھوتہ کرلیا۔۔۔۔سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا تو اب کافی کول محسوس کر رہا ہوں۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں