توجہ اور یکسوئی اس دنیا کے دروازے کی چابی ہے،
خواب دیکھنے والی آنکھیں کیا کیا سپنے بنتی ہیں، کیا کیا آرزوئیں پاوں کی زنجیر
بنتی ہیں، خواہشوں کے مہمیز سے رفتار بڑھتی تو ہے مگر منزل کے تالے یکسوئی کے اسم
اعظم سے ہی کھلتے ہیں۔ ہم اپنے اوائل جوانی میں کسی سمت کا تعین ہی نہیں کرتے۔
ہمارے پاکستانی معاشرے کی یہ عام کہانی ہے۔
ہم رسن بستہ غلاموں کو خبر کچھ بھی نہیں
چلتے جاتے ہیں جدھر کو راہنما جاتے ہیں۔
ہم میں سے کتنوں کو ماں باپ نے ڈاکٹر، انجنئر،
بنانا چاہا تھا۔۔۔اورآج ہم میں سے بس چند ایک ہیں۔ ہماری کلاس ہمارے سکول کے
منتخب بچوں پر مشتمل تھی ، جس کو بہتریں اساتذہ پڑھایا کرتے تھے۔۔انیس سو پچانوے
میں ہماری کلاس کے میں اسی فیصد نمبر لینے والوں کی تعداد پندرہ تھی۔ ان میں سے
ایک ڈاکٹر اور ایک یا دو لوگ انجنئیر بنے۔ اور باقی کے اچھے طالب علم زندگی کے
دوسرے شعبہ جات میں چلے گئی۔ اب کہنے کو تو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کچھ کو منزل
ملی اور کچھ کو نہیں۔ اگر ہم انہی شعبہ جات کو زندگی کے راستے کی ایک کامیابی سمجھ
لیں تو ہمیں کامیابی کے نظام کو سمجھنے میں تھوڑی مدد ملے گی۔ میرا محسوس یہ ہے کہ
جن لوگوں نے یکسو ہو کر محنت کی انہوں نے جو کرنا چاہا وہ کر گئے، اور اکثریت جو
خوابوں کے پیچھے چلی اور یکسو نہ ہوئی وہ آج کے دن تک سوچوں میں گم ہیں۔ جیسے
مجذوب پر کوئی حالت رک جاتی ہے، کوئی سوچ آکر ٹھہر جاتی ہے ایسے ہی بے چارے ابھی
تک بس کسی ان دیکھی دیوار سے بندھے ہیں۔۔۔ان سے بات کی جائے تو بے شمار خواہشوں کے
خیالوں میں گم ہیں ، لیکن آج بھی یکسو
نہیں۔۔۔فیض نے کہا تھا کہ
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال ِ یار فقط آرزو کی بات نہیں۔
ایسے ہی آرزوں سے بڑھ کر منزل کی جانب یکسو قدم
بڑھانا ہی آپ کو منزل سے قریب کرتا چلا جاتا ہے، اور اگر آپ اس ہنر سے بے بہرہ
ہیں تو ہزاروں گرداب آپ کے منتظر ہیں، پھر ہاتھ جیسے الجھے ہوئے ریشم میں دھنستا
چلا جاتا ہے، اور پاوں کسی ان دیکھی کھونٹی سے زنجیر ہونے لگتے ہیں۔
میرے عہد کے لوگوں نے جب زندگی کی سمت متعین
کرنا تھی تو معلومات اس آسانی اور فروانی سے دستیاب ہی نہ تھیں۔ صرف انٹرنیٹ کی
مدد سے آلات موسیقی میں مہارت رکھنے والے وہاب ریاض نامی نوجوان کی کہانی ایک
مشعل راہ ہے۔ دنیا آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ اس سے ہاتھ ملایئے اور جو
پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیے۔ ان گنت معلوماتی ویب سائٹس اور لامحدود معلومات، جہاں
آپ جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں اس کا راستہ کھوج سکتے ہیں، نشانِ منزل کی راہنمائی
لے سکتے ہیں۔ لیکن صرف ایک صفت آپ کو اپنانا ہوگی اور وہ ہے یکسوئی۔۔۔ایک سمت،
ایک راستہ، زیادہ کشتیوں کے سوار کا جو حال ہو سکتا ہے اس کی وضاحت کی بھی ضرورت
نہیں۔۔اس مختصر زندگی میں آپ نے وہ فیصلہ کرنا ہے کہ آخر اس زندگی سے آپ کیا
کام لینا چاہتے ہیں۔ اپنے نام کو تنہائی میں پکار کر پوچھئے کہ آپ کیا بننا چاہتے
ہیں، اور اگر اس کا جواب پالیں تو پھر یکسو ہو جائیں۔۔ آپ کسی نہ کسی کام کے ماہر
ہو جائیں گے۔ آپ اس پیشہ کے سردار ہوں گے۔ وہ شہرت جو آپ اپنی سوچوں میں اپنے
لئے سوچتے ہیں آپ کو ایسے ہی حاصل ہو گی۔۔
لکھنے والوں نے لکھا کہ اگر آپ کا راستہ دشوار
ہوا چلا جاتا ہے تو اس امر کی نشانی ہے کہ آپ چڑھائی کے سفر پر گامزن ہیں،
بس اگر آپ کو زندگی مشکل دکھائی دیتی ہے، کسی منزل کے حصول میں سانس اکھڑنے لگی ہے اور گر کر بہت گہرا گرنے کا خوف ہے تو آپ چڑھائی کے سفر پر ہیں۔۔۔کہتے ہیں یکسوئی روزانہ نہانے کے مترادف ہے۔۔اس سوچ سے خود کو تازہ دم کیجئے اور اپنے دن کا آغاز کر دیجئے۔۔آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں آپ جسے منزل سمجھتے تھے اپ کو نشان منزل لگنے لگے گی کیونکہ
اس راہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں