مجھے لگتا ہے کہ میں بھی کسی ڈکیتی کی واردات میں مارد یا جاوں گا، ڈاکو مجھ سے وہ چھیننے کی کوشش کریں گے جو میرے پاس ہے ہی نہیں، بالآخر کچھ نہ پا کر مجھے مار ڈالیں گے، ۔۔۔نہ جانے کیوں پچھلے کئی سالوں سے یہ واہمہ میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔۔۔۔اب گوکہ میں دنیا کے امن پسند ملکوں میں سے ایک میں بستا ہوں لیکن پھر بھی جب میں اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھتا ہوں ، مجھے لگتا ہے میرے گھر کے درازے کے بالکل سامنے سیڑھیوں کے اوپر میرا ان دیکھا دشمن مجھے ڈھیر کردے گا، میں نے بلڈنگ والوں سے کہہ کر سیکورٹی کیمروں کا بندوبست بھی کیا ہے، لیکن سیکورٹی کیمرے کسی کے ہاتھ تھوڑی پکڑتے ہیں۔۔۔
میرے لاشعور میں یہ بات چلتی رہتی ہے کہ مجھے مارنے والا مجھے کیوں مارے گا، شاید کسی سے پیسے لیکر جسے ہندی فلموں والے سپاری کہتے ہیں۔۔۔۔لیکن کوئی میری سپاری کیونکر بھرے گا؟ کس لئے مجھ پر اپنا پیسہ برباد کرے گا، پھر میں اپنے گناہوں کو ترتیب دیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کس کس جرم پہ میں قابل گردن زنی ہوسکتا ہوں۔۔۔۔ڈھیر ساری باتوں کو ڈھیر سارے دھاگوں سے جوڑ کر اپنے لئے پھندا تیار کرتا ہوں لیکن پھر بھی میری گردن اس میں پھستی دکھائی نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے اس لڑکی کے بھائی مجھے مارنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس کو میں محبت میں دھوکا دے چکا ہوں، بھائی بہنوں کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں، لیکن پھر سوچتا ہوں وہ تو یہاں سے چھ ہزار کلومیٹر دور بستے ہیں کیونکر یہاں تک آ سکتے ہیں، لیکن سپاری تو دے ہی سکتے ہیں۔۔۔۔پھر سوچتا ہوں کون اتنے روپے بھرے گا یہاں ڈنمارک میں کسی قاتل کو ہائیر کرنے کے لئے۔۔۔۔پھر سوچتا ہوں کہ پچھلے سال ایک کریمنل کو گھر میں رکھا تھا۔۔۔۔اس میں میرا قصور نہ تھا ، مجھے ایک کرایہ دار چاہیے تھا اور اور اس کو رہنے کو گھر ۔۔۔اس کے سارے ڈاکومنٹ اصلی تھی۔۔۔وہ لوگوں کے جعلی ویزے لگانے کا دھندا کرتا تھا، دیکھنے میں بالکل معصوم سا تھا۔۔۔۔اب بھی کبھی کبھی اس کے نام کے بھولے بھٹکے خط میرے پتے پر آتے ہیں کوئی اس کو ڈھونڈنے آتا ہوگا۔۔۔۔اور دروازہ بند دیکھ کر سیڑھیوں پر ہی بیٹھا ہو گا، میں اس کو لاکھ سجھاوں گا لیکن وہ میری بات پر اعتبار نہیں کرے گا۔۔۔اپنے پیسوں کا مطالبہ کرے گا اور نہ ملنے پر مجھے سیڑھیوں سے دھکا دے دے گا۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا ہے جس تواتر سے میری گھر والی مجھ سے شکوہ کناں رہتی ہے، یہ ضرور مجھ سے پیچھا چھڑوانے کی کوشش کرے گی اور ہو سکتا ہے کسی روز یہ ہی مجھے سڑھیوں
سے دھکا دے دے۔
سیڑھیوں سے دھکے میں بھی ایک خاص قسم کی سنسنی ہے، میں نے کئی فلموں میں لوگوں کو گھومتے ہوئے سیڑھیوں سے لڑھکتے دیکھا ہے، ہڈیاں پسلیاں ایک ہو جاتیں ہیں اور بدن لہو لہان۔۔۔۔۔۔۔بند آنکھوں کو آہستگی سے کھول کر دیکھتا ہوں کہ نہیں ابھی کسی نے مجھے دھکا نہیں دیا۔۔
سڑک پر ٹریفک کی لال بتی پر اردگرد نظر دوڑاتا ہوں کہ ابھی کوئی ساتھ والی گاڑی سے نکلے گا اور تڑتڑاہٹ کی ایک آواز گونجے گی اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔میرا جسم چھلنی بنا دیا جائے گا۔۔۔۔مجھے آخری دموں پر ہسپتال لے جایا جاتا ہوا ایک نوجوان یاد آجاتا ہے جو فرقہ واریت کی کسی معمولی لڑائی میں لہولہان ہوا ہسپتال کی طرف لے جایا جا رہا تھا، اور وہ دھمکی تو اب بھی میرے کانوں میں سایں سایں کرنے لگتی ہے۔۔۔۔کہ فلاں فرقے کو سپورٹ نہ کرو ۔۔۔ورنہ یہ نہ ہو کہ ساری عمر مسلمان ہونے کی قسمیں اٹھاتے رہو ۔۔۔میں بے بسی کے ان لمحات پر نظریں گاڑ دیتا ہوں جب محض نقطہ نظر کے اختلاف کے پیشِ نظر لوگ میرے دین ، میرے اسلام کو مجھ سے چھیننے کے درپے ہو جائیں گے۔۔۔۔
میں روز بروز نئے نئے طریقوں سے ہر نئی صلیب پر جھولتا ہوں، وہ کون سا خونی منظر ہو گا جو ان آنکھوں نے سجایا نہ ہوگا، ہر کہانی اور ہر کردار کے ساتھ میرا گلہ کٹتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔
میں خود کو بارہا یقین دلاتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا، ، کون میری جان کو ناحق قتل کر ڈالے گا؟ کون ہے جو بلاوجہ مجھے سیڑھیوں سے دھکا دے دے گا؟ کیا کسی معمولی غلطی کی سزا کسی کی جان لینا ہو سکتا ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا؟ ایسے کسیے کوئی کسی کی جان لے سکتا ہے۔۔۔۔میں سر کو جھٹکتا ہوں اور خود کو تقریبا یقین دلا دیتا ہوں کہ نہیں میں کسی کو مطلوب نہیں ہوں، کوئی میری جان کے درپے نہیں ہے۔۔۔۔لیکن پھر دل میں واہمہ سا سر اٹھاتا ہے ایک سرگوشی سی سنائی دیتی ہے۔۔۔۔۔۔کیا تمہیں یقین ہے جتنے لوگ مار دیئے گئے، بموں سے اڑا دئے گئے۔۔۔۔ان کا کوئی قصور تھا۔۔۔۔
پشاور کے معصوم بچوں کی سپاری کس نے بھری تھی؟ کراچی کی گلیوں میں اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کا مسلک کیا تھا؟ آندھی جیسی رفتار سے چلنے والی گاڑی کے نیچے قیمہ ہو جانے والے کس نفرت کا شکار ہوئے تھے۔۔۔بس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ پاکر پھر اس نادیدہ قاتل کو سوچنے لگتا ہوں۔۔۔۔میرا قاتل۔۔۔۔۔
یہ تحریر جنگ میگزین جرم و سزا میں چھپ چکی ہے۔
http://magazine.jang.com.pk/detail_article.asp?id=28506
میرے لاشعور میں یہ بات چلتی رہتی ہے کہ مجھے مارنے والا مجھے کیوں مارے گا، شاید کسی سے پیسے لیکر جسے ہندی فلموں والے سپاری کہتے ہیں۔۔۔۔لیکن کوئی میری سپاری کیونکر بھرے گا؟ کس لئے مجھ پر اپنا پیسہ برباد کرے گا، پھر میں اپنے گناہوں کو ترتیب دیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کس کس جرم پہ میں قابل گردن زنی ہوسکتا ہوں۔۔۔۔ڈھیر ساری باتوں کو ڈھیر سارے دھاگوں سے جوڑ کر اپنے لئے پھندا تیار کرتا ہوں لیکن پھر بھی میری گردن اس میں پھستی دکھائی نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے اس لڑکی کے بھائی مجھے مارنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس کو میں محبت میں دھوکا دے چکا ہوں، بھائی بہنوں کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں، لیکن پھر سوچتا ہوں وہ تو یہاں سے چھ ہزار کلومیٹر دور بستے ہیں کیونکر یہاں تک آ سکتے ہیں، لیکن سپاری تو دے ہی سکتے ہیں۔۔۔۔پھر سوچتا ہوں کون اتنے روپے بھرے گا یہاں ڈنمارک میں کسی قاتل کو ہائیر کرنے کے لئے۔۔۔۔پھر سوچتا ہوں کہ پچھلے سال ایک کریمنل کو گھر میں رکھا تھا۔۔۔۔اس میں میرا قصور نہ تھا ، مجھے ایک کرایہ دار چاہیے تھا اور اور اس کو رہنے کو گھر ۔۔۔اس کے سارے ڈاکومنٹ اصلی تھی۔۔۔وہ لوگوں کے جعلی ویزے لگانے کا دھندا کرتا تھا، دیکھنے میں بالکل معصوم سا تھا۔۔۔۔اب بھی کبھی کبھی اس کے نام کے بھولے بھٹکے خط میرے پتے پر آتے ہیں کوئی اس کو ڈھونڈنے آتا ہوگا۔۔۔۔اور دروازہ بند دیکھ کر سیڑھیوں پر ہی بیٹھا ہو گا، میں اس کو لاکھ سجھاوں گا لیکن وہ میری بات پر اعتبار نہیں کرے گا۔۔۔اپنے پیسوں کا مطالبہ کرے گا اور نہ ملنے پر مجھے سیڑھیوں سے دھکا دے دے گا۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا ہے جس تواتر سے میری گھر والی مجھ سے شکوہ کناں رہتی ہے، یہ ضرور مجھ سے پیچھا چھڑوانے کی کوشش کرے گی اور ہو سکتا ہے کسی روز یہ ہی مجھے سڑھیوں
سے دھکا دے دے۔
سیڑھیوں سے دھکے میں بھی ایک خاص قسم کی سنسنی ہے، میں نے کئی فلموں میں لوگوں کو گھومتے ہوئے سیڑھیوں سے لڑھکتے دیکھا ہے، ہڈیاں پسلیاں ایک ہو جاتیں ہیں اور بدن لہو لہان۔۔۔۔۔۔۔بند آنکھوں کو آہستگی سے کھول کر دیکھتا ہوں کہ نہیں ابھی کسی نے مجھے دھکا نہیں دیا۔۔
سڑک پر ٹریفک کی لال بتی پر اردگرد نظر دوڑاتا ہوں کہ ابھی کوئی ساتھ والی گاڑی سے نکلے گا اور تڑتڑاہٹ کی ایک آواز گونجے گی اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔میرا جسم چھلنی بنا دیا جائے گا۔۔۔۔مجھے آخری دموں پر ہسپتال لے جایا جاتا ہوا ایک نوجوان یاد آجاتا ہے جو فرقہ واریت کی کسی معمولی لڑائی میں لہولہان ہوا ہسپتال کی طرف لے جایا جا رہا تھا، اور وہ دھمکی تو اب بھی میرے کانوں میں سایں سایں کرنے لگتی ہے۔۔۔۔کہ فلاں فرقے کو سپورٹ نہ کرو ۔۔۔ورنہ یہ نہ ہو کہ ساری عمر مسلمان ہونے کی قسمیں اٹھاتے رہو ۔۔۔میں بے بسی کے ان لمحات پر نظریں گاڑ دیتا ہوں جب محض نقطہ نظر کے اختلاف کے پیشِ نظر لوگ میرے دین ، میرے اسلام کو مجھ سے چھیننے کے درپے ہو جائیں گے۔۔۔۔
میں روز بروز نئے نئے طریقوں سے ہر نئی صلیب پر جھولتا ہوں، وہ کون سا خونی منظر ہو گا جو ان آنکھوں نے سجایا نہ ہوگا، ہر کہانی اور ہر کردار کے ساتھ میرا گلہ کٹتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔
میں خود کو بارہا یقین دلاتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا، ، کون میری جان کو ناحق قتل کر ڈالے گا؟ کون ہے جو بلاوجہ مجھے سیڑھیوں سے دھکا دے دے گا؟ کیا کسی معمولی غلطی کی سزا کسی کی جان لینا ہو سکتا ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا؟ ایسے کسیے کوئی کسی کی جان لے سکتا ہے۔۔۔۔میں سر کو جھٹکتا ہوں اور خود کو تقریبا یقین دلا دیتا ہوں کہ نہیں میں کسی کو مطلوب نہیں ہوں، کوئی میری جان کے درپے نہیں ہے۔۔۔۔لیکن پھر دل میں واہمہ سا سر اٹھاتا ہے ایک سرگوشی سی سنائی دیتی ہے۔۔۔۔۔۔کیا تمہیں یقین ہے جتنے لوگ مار دیئے گئے، بموں سے اڑا دئے گئے۔۔۔۔ان کا کوئی قصور تھا۔۔۔۔
پشاور کے معصوم بچوں کی سپاری کس نے بھری تھی؟ کراچی کی گلیوں میں اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کا مسلک کیا تھا؟ آندھی جیسی رفتار سے چلنے والی گاڑی کے نیچے قیمہ ہو جانے والے کس نفرت کا شکار ہوئے تھے۔۔۔بس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ پاکر پھر اس نادیدہ قاتل کو سوچنے لگتا ہوں۔۔۔۔میرا قاتل۔۔۔۔۔
یہ تحریر جنگ میگزین جرم و سزا میں چھپ چکی ہے۔
http://magazine.jang.com.pk/detail_article.asp?id=28506
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں