ویسے تو عہد جوانی اور یونیورسٹی میں گذرنے والی ہر شام رنگوں اور خوشبووں سے معطر ہوتی ہے، لیکن ہماری جامعہ زرعیہ فیصل آباد کی وہ شامیں اور راتیں جن میں السٹونیا کے پھول سارے ماحول کو جادوئی سا کر دیتے تھے، جیسے بانو قدسیہ کے ناول کا راجہ گدھ چاندنی راتوں میں دیوانہ سا ہو جاتا تھا ایسے ہی ڈھلتی گرمیوں کے سمے ان پھولوں کی مہک میں دل والوں کی آنکھوں میں نیند نہ پڑتی تھی۔۔۔۔۔ان راتوں میں ایسی کشش تھی کہ کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں ، ٹھہر جائیں زرا کا سا سماں بندھتا تھا۔۔۔۔خیر جامعہ بھی وہیں ہے، اور اس کے یو روڈ پر لگے ہوئے السٹونیا کے درخت بھی وہیں ہیں۔۔۔ابھی کچھ دو تین ماہ میں خوشبو بھری راتیں آیا چاہتی ہیں۔۔۔جس کو وقت میسر ہو ان راتوں میں اپنی یادوں کو مہکا سکتا ہے۔ ۔۔۔۔آج اخبار کی شہہ سرخیوں میں گرمی کی شدت کے ہاتھوں چار سو مرنے والوں کے خیالوں نے مجھے جامعہ کی ٹھنڈی سڑک پر پہنچا دیا۔۔۔۔وہ ٹھنڈی سڑک جس پر گھنے درختوں کا سایہ تھا اور بے شمار پرندوں کے گھونسلے۔۔۔۔۔ہم جامعہ کے دوستوں گرمیوں کی شاموں میں تندور ایسے کمروں سے نکل کر اس ٹھنڈی سڑک کی سیر کو جاتے۔۔۔اور سر شام پرندوں کے قافلے جامعہ کی اسی سڑک پر اپنا اجتماع کرتے۔۔۔سارے دن کی کارستانیاں ایک دوسرے کے گوش گذار کرتے۔۔۔۔اور کچھ شرارتی پرندے تاک تاک جامعہ کے معصوم طالب علموں کے دھلے ہوئے کپڑوں پر پچکاریاں بھی پھینکتے تھے۔۔۔جامعہ کے گرو و نواح کے لوگ بھی اپنے جلتے گھروں کو چھوڑ کر جامعہ کے سبزہ زاروں کا رخ کرتے۔۔۔اور یوں ہر صبح اور شام کو زرعی یونیورسٹی کے دالانوں میں ایک میلے کا سا ساماں رہتا تھا۔۔۔۔ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ جامعہ کے اندر کا درجہ حرارت باقی کے شہر کے درجہ حرارت سے ایک دو درجے کم ہی رہا کرتا تھا۔۔۔اس کی وجہ بلا شبہ جامعہ میں موجود بے
شمار درخت اور پودے ہی تھے۔
وہ تمثیلی کہانیاں جن میں بادشاہ بوڑھوں سے پوچھا کرتے ہیں کہ اس عمر میں درخت کیونکر لگا رہے ہو ۔۔۔۔اور دانا کا یہ جواب کہ ہمارے بڑوں نے لگائے ہم نے پھل کھایا اور ہم لگائیں گے تو ہمارے بچے پھل کھائیں گے۔۔۔اب پرانی ہوچکیں۔۔۔اب عمل کا وقت ہے۔۔۔میں اور میرے دوست پچھلے دو سالوں سے ایک عمل کا حصہ ہیں جس کا نام فروٹ فار لائف ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت ہم نے پاکستان میں پھلدار پودے لگانے کے سلسلے کا آغاز کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے ان پھلدار اور سخت جان درختوں کو واپس اپنے ماحول میں لایا جائے جو یہاں پہلے سے موجود تھے، جیسے پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں کے ساتھ ، شہتوت، بیریاں، امروود، جامن ، سنگترے، انار اور ایسے بے شمار پھل دار درخت موجود تھے جن کے پھل پر ہر کسی کا حق تھا۔۔۔جو گاوں کے لوگ مل بانٹ کر کھاتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر کے اندر انار کے درخت پر جب پھل آتا تو ہمارے دوست ، ہمسائے اپنےاپنے انار کے پکنے کا انتظار کرتے۔۔۔اور پھر جب پھل پک جاتے تو سب کو بانٹ دیئے جاتے۔ اسی جذبہ کے تحت ہم نے اس پراجیکٹ کا آغاز کیا تھا، بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے طالب علموں اور اساتذہ کے توسط سے کم از کم تین ہزار پھلدار پودے تقسیم بھی کئے گئے ہیں۔ اسی سال مارچ میں میں نے خود اپنے شہر چیچہ وطنی میں سنگترے کے نوے پودے مختلف سکولوں میں لگوائے ہیں۔ ہمارا کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگوں سے درخواست کرتے ہیں وہ ایک پودے کی نگہداشت کی ذمہ داری اٹھا لیں ان کو پودہ مفت فراہم کیا جائے گا۔ پودے کی نگہداشت کی ذمہ داری اٹھانے والا وقتا فوقتا پودے کی بڑھوتری کے متعلق ہمیں آگاہ کرتا رہے گا اور اگر اسے کسی قسم کی ٹیکنکل راہنمائی کی ضرورت ہو گی تو ہم مہیا کریں گے۔
پاکستان میں شجر کاری کے لئے بہت سے ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ سندھ کی حد تک رفیق سومرو ٹرسٹ ، پنجاب میں مورنگا کے حوالے سے ڈاکٹر شہزاد بصرہ صاحب مورنگا فار لائف کے نام بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ محکمہ جنگلات بھی شجر کاری کی مختلف مہمات کا آغاز کرتا رہتا ہے۔ این ڈبلیو ایف پی میں صوبائی حکومت کا ایک ارب درختوں کا منصوبہ بھی خوش آئند ہے۔۔۔۔لیکن اس قسم کے منصوبے لوگوں یعنی عوام کی عملی شراکت داری کے بغیر بالکل ناکام ہیں۔ اس کے لئے ہمیں مل جل کر کوشش کرنا ہے۔ ابھی کل ہی ہمارے بلاگر دوست محمد اسد اسلم صاحب نے آئیڈیا پیش کیا ہے پاکستان میں ڈیڑھ ارب کے قریب فیس بک صارفین ہی اگر اپنی حصے کا پودہ لگا دیں تو ماحول میں خاطر خواہ بہتری لائی جا سکتی ہے۔
فراز نے کہا تھا کہ
شکوہ ظلمت شب سے تو یہی بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ہو سکتا ہے آپ اپنی زندگی کی سبھی آرزوئیں پوری نہ کرپائیں، ہو سکتا ہے کہ ہماری بہت سی خواہشیں ادھوری رہ جائیں۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ ہم سے کوئی بڑا کام نہ ہو پائے۔۔۔۔لیکن ایک چھوٹا سا قدم ، چھوٹا سا کام جو بڑے مقصد کے لئے ہے۔۔آپ سے آغاز ہو سکتا ہے۔۔۔۔اٹھئے قدم بڑھائیے اور اپنے حصے کا ایک پودا لگائیے۔۔۔
ہو سکتا ہے کہ پھر سے تنہائیاں مہک اٹھیں۔۔۔اور لو میں جھلس جانے والے چار سو میں سے کسی کو تو ٹھنڈی سڑک کی
ٹھنڈی چھاوں میسر ہو۔
ہمارے ساتھ دینے کے لئے رابطہ کریں فروٹ فار لائف فیس بک
http://www.dawn.com/news/1192623/how-many-of-pakistans-15-million-facebook-users-would-plant-a-tree
یہ آرٹیکل ڈان نیوز اردو میں چھپ چکا ہے ، اس کا لنک یہ رہا http://www.dawnnews.tv/news/1023374
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں