میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کے کچھ خواب ہوتے ہیں، وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں، کوئی بڑا آدمی بننا چاہتا ہے، کوئی سیاستدان، کوئی گلوکار، کوئی فنکار ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔اور پھر لوگ اس کے لئے محنت بھی کرتے ہیں۔ ۔۔میں اپنی زندگی پر ایک نظر ڈالوں تو ایسے خواب کہیں دکھائی نہیں دیتے۔۔۔ہاں وقتا فو قتا کچھ خواہشیں لاحق رہیں جن کے پیچھے کچھ دور تک بھاگے بھی ۔۔۔۔جیسے ایف ایس سی شروع کی تو ڈاکٹر بن جانے کی خواہش، ۔۔۔لیکن جامعہ زرعیہ میں پہنچ کر کبھی سوچا بھی نہیں کہ ڈاکٹر بن جاتے تو کیا ہوتے، پھر عین جب ایم ایس سی اختتام پر آئی تو سی ایس ایس کی خواہش نے جنم لیا، کچھ وقت اس کے پیچھے بھاگے مگر یہ ہو نہ سکا۔۔۔پھر نوکری کے پیچھے وہی جو اپنی زراعت افسری ہوتی ہے۔۔۔۔پھر سوچا پرائیویٹ نوکری کے بڑے ششکے ہیں، پرائیویٹ میں چلے آئے، پھر سنا پردیس میں حالات بہت اچھے ہیں تو اب پردیس کی خاک چھان رہے ہیں۔۔۔۔
بس ایسے ہی جیسے میلے میں ایک بچہ ہر رنگ کے پیچھے کچھ دیر کو دوڑتا ہے، ہر تماشے کے پاس رکتا ہے، ہر کھابے پر للچاتا ہے۔۔۔۔بس دیکھتے دیکھتے گذر جاتا ہے۔۔۔مگر ان آنکھوں کو خواب جیسے بیماری کبھی نہیں لگی۔۔۔اب بھی دل میں کچھ خوابوں کے خیال آتے ہیں مگر خواب نہیں آتے۔۔
کچھ آرزوئیں سی ہیں، جن کو خواہش بھی نہیں کہہ سکتا۔۔
ابن انشا کی ایک چھوٹی سی نظم ہے دہرائے دیتا ہوں
ایک چھوٹا سا بچہ تھا جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا بچہ تھا میں جن دنوں
خیر۔ محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
نا رسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
مگر وہ چھوٹا سا الہڑ سا لڑکا کہاں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے وہ حسرتیں تھیں جو دل ہی دل میں پلتی رہیں، کوئی کہانی اور نظم بھی نہ بن پائیں۔
بس ایسے ہی جیسے میلے میں ایک بچہ ہر رنگ کے پیچھے کچھ دیر کو دوڑتا ہے، ہر تماشے کے پاس رکتا ہے، ہر کھابے پر للچاتا ہے۔۔۔۔بس دیکھتے دیکھتے گذر جاتا ہے۔۔۔مگر ان آنکھوں کو خواب جیسے بیماری کبھی نہیں لگی۔۔۔اب بھی دل میں کچھ خوابوں کے خیال آتے ہیں مگر خواب نہیں آتے۔۔
کچھ آرزوئیں سی ہیں، جن کو خواہش بھی نہیں کہہ سکتا۔۔
ابن انشا کی ایک چھوٹی سی نظم ہے دہرائے دیتا ہوں
ایک چھوٹا سا بچہ تھا جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا بچہ تھا میں جن دنوں
خیر۔ محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
نا رسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
مگر وہ چھوٹا سا الہڑ سا لڑکا کہاں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے وہ حسرتیں تھیں جو دل ہی دل میں پلتی رہیں، کوئی کہانی اور نظم بھی نہ بن پائیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں