مداری نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، ایسا پرندہ جس کے سر پر پاوں ہیں، بھیڑ تھی کہ بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔لوگ اکٹھے ہو گئے تو اس نے اپنی منجن بیچنا شروع کردی۔۔۔۔۔۔ایسے مجمعے آپ نے جگہ بدل بدل کر جگہ جگہ دیکھے ہوں گے، لاہور اردو بازار سے داتا دربار کی جانب جائیں تو سانڈوں کا تیل بیچنے والی ریچھ کی تصاویر کا تذکرہ کر کے لوگوں کو متوجہ کرتے پائے جاتے ہیں، مداریوں کہ ان گروں سے ہماری اکثریت آشنا ہے مگر پھر بھی وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ
وہ تہی دست بھی کیا خوب کہانی گر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا
ان کہانی گروں کی باتوں میں ایسی چاٹ ہوتی ہے لوگ رک کر ٹھہر کر ان کی بات سنتے ہیں۔ لوگوں کو تجسس کی لاٹھی سے ہانک کر آپ کسی بھی مجمع کا حصہ بنا سکتے ہیں، لیکن جو کہانی گری اور مداری پن ویب جرنلزم کے آنے سے آغاز ہوا ہے وہ اس درجہ بازاری ہے کہ پڑھنے لکھنے سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والے پریشان ہیں کہ ہمارا میڈیا ہمیں کیا دکھانے جا رہا ہے۔
صحافی، اخبار لکھنے والے، ادیب ، شاعر کسی بھی قوم کے حساس ترین لوگ ہوتے ہیں، جو پھول کو بھی پتھر کی طرح محسوس کر سکتے ہیں، یہ لوگ کو سوچ اور راستہ دیتے ہیں، جب قوم کسی گمراہی کی طرف گامزن ہو ان یہ آواز لوگوں کو آنے والے خطروں سے خبردار کرتی ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے سونامی میں ہماری اقدار کو ناقابل تلافی زک پہنچائی ہے۔ وہ جو ہماری عمر کے لوگ کہنے کے لئے بارہ برس انتظار کر لیا کرتے تھے اب بارہ منٹوں میں بارہ لوگوں کو کہہ چکے ہوتے ہیں۔ لوگ تو تڑاخ کی زندگی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں، میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اتنی کثافت کہاں سے آتی جا رہی ہے۔ اور میں پورے وثوق سے سمجھتا ہوں کہ ہمارا میڈیا اس کا بہت زیادہ ذمہ دار ہے۔ ۔۔۔۔پاکستان کے بڑے اخباروں میں سے ایک نے کل ایک سہاگ رات کی خبر کو بھی کوریج بخشی جس میں دلہن نے دلہا میاں کی پسلیوں پر لاتیں پرسائیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ اور جب یہی خبر سوشل میڈیا پر آتی ہے اور ویب ٹریفک کے بہاو کو اپنی طرف لانے کے پاگل اخباروں کے ہاتھ چڑھتی ہے تو اس خبر کا رنگ کچھ ایسا ہو جاتا ہے۔
دلہن نے پہلی رات دلہا کو ایسا کیا کردیا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تفصیلات لنک میں
یا پھر
سہاگ رات میں دلہا کی پسلیاں ٹوٹ گئی مگر کیسے؟ تفصلات لنک میں
یا پھر
سہاگ رات میں کیا کیا ٹوٹ گیا ایک سچی کہانی ۔۔۔۔۔تفصلات لنک میں
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بڑی سوشل میڈیا اخبار کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا ۔۔۔۔کہ اس اخبار کے مالک کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ، نرس نے آ کر مبارکباد پیش کی اور مبارک ہو آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے، تفصیلات لنک میں ملاحظہ کریں۔
عام سی خبروں میں ایک خاص قسم کی سنسنی پیدا کردیتے ہیں، اور ایسے جملوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔
ایسی خبر جس کو سن کر آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی
ایسی خبر جو تاریخ میں پہلے نہ سنی ہو گی
ایسا کام جو کسی نہ کیا ہو گا
ایسا واقع جو آپ کے ہوش اڑا دے گا
ایسی شرمناک حرکت جو کسی نے نہ کی ہو
اور غیر ملکی اخبارات سے بھی یہ ظالم ایسی خبریں ہی اٹھاتے ہیں جن کا مقصد سوائے ڈگڈگی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا ایسی خبروں کے بارے ہمارے بلاگر دوست محمد سلیم صاحب کچھ اسطرح سے رقمطراز ہیں۔
نوٹ۔ یہ تحریر پہلے ڈان نیوز میں چھپ چکی ہے ، اس کا لنک یہ رہا
ڈان نیوز کا لنک
اس مضمون پر روزنامہ پاکستان کا ردعمل بھی آیا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ ہو ۔ روزنامہ پاکستان ردعمل
وہ تہی دست بھی کیا خوب کہانی گر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا
ان کہانی گروں کی باتوں میں ایسی چاٹ ہوتی ہے لوگ رک کر ٹھہر کر ان کی بات سنتے ہیں۔ لوگوں کو تجسس کی لاٹھی سے ہانک کر آپ کسی بھی مجمع کا حصہ بنا سکتے ہیں، لیکن جو کہانی گری اور مداری پن ویب جرنلزم کے آنے سے آغاز ہوا ہے وہ اس درجہ بازاری ہے کہ پڑھنے لکھنے سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والے پریشان ہیں کہ ہمارا میڈیا ہمیں کیا دکھانے جا رہا ہے۔
صحافی، اخبار لکھنے والے، ادیب ، شاعر کسی بھی قوم کے حساس ترین لوگ ہوتے ہیں، جو پھول کو بھی پتھر کی طرح محسوس کر سکتے ہیں، یہ لوگ کو سوچ اور راستہ دیتے ہیں، جب قوم کسی گمراہی کی طرف گامزن ہو ان یہ آواز لوگوں کو آنے والے خطروں سے خبردار کرتی ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے سونامی میں ہماری اقدار کو ناقابل تلافی زک پہنچائی ہے۔ وہ جو ہماری عمر کے لوگ کہنے کے لئے بارہ برس انتظار کر لیا کرتے تھے اب بارہ منٹوں میں بارہ لوگوں کو کہہ چکے ہوتے ہیں۔ لوگ تو تڑاخ کی زندگی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں، میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اتنی کثافت کہاں سے آتی جا رہی ہے۔ اور میں پورے وثوق سے سمجھتا ہوں کہ ہمارا میڈیا اس کا بہت زیادہ ذمہ دار ہے۔ ۔۔۔۔پاکستان کے بڑے اخباروں میں سے ایک نے کل ایک سہاگ رات کی خبر کو بھی کوریج بخشی جس میں دلہن نے دلہا میاں کی پسلیوں پر لاتیں پرسائیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ اور جب یہی خبر سوشل میڈیا پر آتی ہے اور ویب ٹریفک کے بہاو کو اپنی طرف لانے کے پاگل اخباروں کے ہاتھ چڑھتی ہے تو اس خبر کا رنگ کچھ ایسا ہو جاتا ہے۔
دلہن نے پہلی رات دلہا کو ایسا کیا کردیا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تفصیلات لنک میں
یا پھر
سہاگ رات میں دلہا کی پسلیاں ٹوٹ گئی مگر کیسے؟ تفصلات لنک میں
یا پھر
سہاگ رات میں کیا کیا ٹوٹ گیا ایک سچی کہانی ۔۔۔۔۔تفصلات لنک میں
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بڑی سوشل میڈیا اخبار کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا ۔۔۔۔کہ اس اخبار کے مالک کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ، نرس نے آ کر مبارکباد پیش کی اور مبارک ہو آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے، تفصیلات لنک میں ملاحظہ کریں۔
عام سی خبروں میں ایک خاص قسم کی سنسنی پیدا کردیتے ہیں، اور ایسے جملوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔
ایسی خبر جس کو سن کر آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی
ایسی خبر جو تاریخ میں پہلے نہ سنی ہو گی
ایسا کام جو کسی نہ کیا ہو گا
ایسا واقع جو آپ کے ہوش اڑا دے گا
ایسی شرمناک حرکت جو کسی نے نہ کی ہو
اور غیر ملکی اخبارات سے بھی یہ ظالم ایسی خبریں ہی اٹھاتے ہیں جن کا مقصد سوائے ڈگڈگی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا ایسی خبروں کے بارے ہمارے بلاگر دوست محمد سلیم صاحب کچھ اسطرح سے رقمطراز ہیں۔
قوانزھو میں شادی کے نام پر انسانیت سے گری حرکتیں
کاشی میں شراب نوشی کا مقابلہ، بیہودگی اپنی انتہاء پر
برازیل میں حیا باختہ عورتوں کا اجتماع، انسانیت شرمندہ
کینیڈا میں لباس سے عاری حوا کی بیٹیاں، سر شرم سے جھک گئے۔
امریکہ میں****
انڈیا میں ****
فلاں جگہ پر ****
کاشی میں شراب نوشی کا مقابلہ، بیہودگی اپنی انتہاء پر
برازیل میں حیا باختہ عورتوں کا اجتماع، انسانیت شرمندہ
کینیڈا میں لباس سے عاری حوا کی بیٹیاں، سر شرم سے جھک گئے۔
امریکہ میں****
انڈیا میں ****
فلاں جگہ پر ****
ارے او میرے بھائی، جانتے ہو تم کیا ہو اور کیا کر رہے ہو؟ تم ایک ادبی دہشت گرد، صحافت کے نام پر تہمت اور ادب پر ایک داغ ہو۔
باہر کی دنیا سے علمی، ثقافتی اور قابل تقلید عادات، واقعات اور حالات کا ذکر کرو۔ ان کے محاسن بتا کر عمل پیروی کی طرف رغبت دو، کسی اچھی سوچ کو پنپنے میں مدد کرو۔
یہ کیا بیہودگی اور لُچر پن لکھ رہے ہو؟ کچھ تو شرم کرو، تم نے بھی جان دینی ہے، اپنے لکھے کا حساب دینا ہے۔
یہ نا ہی سنسنی ہے، نا ہی خبر ہے، نا ہی کوئی اچھوتی معلومات ہے اور نا ہی کسی آگہی کی طرف پیش رفت۔
یہ صرف اور صرف تمہارے ذہن کا گند ہے جسے تم سوشل میڈیا اور صحافت میں پھیلا کر اس تالاب کے اجلے پانی کو گندا کر رہے ہو۔
ہمارے صحافی دوست جناب شہزاد چوہدری صاحب بارے اس معاملہ کے کچھ اسطرح لکھتے ہیں
اکثر آن لائین پیپرز جو رپورٹنگ اور جرنلزم کر رہے ہیں وہ جرنلزم کی کسی قسم میں بھی نہیں آتی ..میرے خیال میں یہ ایک نئی قسم ہے جسے "سٹوپڈ جرنلزم/رپورٹنگ" کا نام دیا جا سکتا ہے .
میرے ملک کے اخبار لکھنے والوں کو کیا ہو گیا ہے؟؟ ان کی سرخیوں کا رنگ گہرا سرخ ہوتا جا رہا ہے، ۔انتہائی احتیاط سے منتخب الفاظ کی چاشنی کی بجائے۔۔۔بازاری
مصالحوں کی کھٹاس سے سارا مزا کرکرا کرنے والوں سے کوئی پوچھنے
والا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔
شامی صاحب کا مردانہ دواخانہ |
اسلام دشمنوں کی قبیح حرکت؟؟؟ |
تہلکہ خیز دعوی؟؟؟ |
سب سے بڑی؟؟؟ |
حیرت انگیز۔۔۔کبھی نہ سنا ہوگا |
آپ کے ہوش اڑا دے |
بے چین ہو گئیں؟؟؟ |
وجہ شرمناک |
دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا |
گولی کیوں نہ ماری؟؟ |
حیرت اینگیز انکشافات |
ابھی چند روز وسیم اکرم صاحب کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ، سوشل میڈیا پر پہلا تاثر یہ پھیلا کہ شاید یہ کوئی دہشت گردی کی کاروائی ہے، جب کہ ٹریفک میں کسی کا غصہ میں آجانا بیانات سے بالکل باہر کردیا گیا اور ایک عجیب و غریب تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔
مجھے امید ہے ان اخبارات کے دفاتر میں کوئی سوچنے والے لوگ موجود ہوں گے، پاکستانی سٹیج ڈرامہ جیسے مرا تھا، کیا ایسے ہی اخبارات دم توڑنے والے ہیں، لوگوں کی ساری خواہشوں کا احترام نہیں کیا جا سکتا؟ کہیں تو کوئی حد مقرر کرنا ہوگی، غیرملکی خبروں میں سے اچھی خبروں کا انتخاب بھی تو کیا جا سکتا ہے، سستی اور گھٹیا خبریں ہی کیوں؟
اپنے سٹاف کی تربیت پر تھوڑی محنت بھی تو کی جا سکتی ہے، ایک لکھنے والے کی شان ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کردے، سرخی لگانے کا فن کیونکر ختم ہو گیا، شرمناک وجہ؟ تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔۔۔اس جیسے جنیرک جملوں کی بجائے خبر کے مغز کو سرخی تک لانے کی محنت کیوں نہیں۔
میرے ملک کے دانشورو ۔۔۔۔پبلش کا بٹن دبانے سے پہلے ، ذرا پہلے۔۔۔۔سوچو ضرور کہ اس خبر کا پیغام کیا ہے؟؟؟؟
نوٹ۔ یہ تحریر پہلے ڈان نیوز میں چھپ چکی ہے ، اس کا لنک یہ رہا
اس مضمون پر روزنامہ پاکستان کا ردعمل بھی آیا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ ہو ۔ روزنامہ پاکستان ردعمل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں