بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
بس ایسے ہی جب سے پاکستان سے باہر آیا ہوں ، ٹریفک کا بے ہنگم شور کچھ کم پڑ گیا ہے، ایسا نہیں کہ جہاں میں ہوں وہاں گاڑی کوئی نہیں چلاتا یا گاڑیوں کی لمبی قطاریں نہیں لگتیں۔۔۔یہاں بھی گاڑیاں خوب چلتی ہیں مگر ہارن کی آواز سنائی نہیں دیتی۔۔۔۔لوگ دفتروں میں آتے جاتے ہیں، کام بھی کرتے ہیں اور خاندان بھی پالتے ہیں مگر ان کے عادات و اطوار میں بے چینی بھری تیزی نہیں ہوتی۔۔۔خود میں بھی لاہور کا ٹریفک کا حصہ رہا ہوں، اسی شہر میں گاڑی چلانے کا آغاز کیا۔ اور خدا تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کسی کے حادثہ کا باعث نہیں بنا اور کبھی کسی ٹریفک کے حادثہ سے بھی محفوظ رہا۔
پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس کیسے بنتے ہیں، اس پرایک ٹی وی پروگرام نے تجرباتی طور پر ایک اندھے کے لئے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر کے دکھایا تھا۔ گو کہ کچھ سالوں سے اس نظام میں کافی بہتری لائی گئی ہے مگر پھر بھی ہمارے ملک کو قانون و قوائد کے پابند ڈرائیورز کی اشد ضرورت ہے۔
اکستان کی سڑکوں پر بظاہر پڑھے لکھے نظر آنے والے ان پڑھ ڈرائیورز کی بھر مار ہے، کسی کو خبر نہیں کہ کہاں رکنا ہے، اور کہا ں قیام کرنا ہے،کس قطار میں چلنا ہے اور کس گاڑی سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے، سب کو بس ایک دھن ہے کہ کیسے آگے والی گاڑی سے آگے نکلا جا سکتا ہے، آگے لمبی قطار ہے یا لمبی گاڑی ، پیچھے والے ڈرائیور کو بس ہارن بجانا آتا ہے یا لائیٹوں سے اشارہ کرنا۔۔۔۔نجانے انہیں کس نے بتا رکھا ہے کہ لائیٹوں سےلگاتار اور باربار اشارہ دینے کامطلب راستہ مانگنا ہے۔۔۔۔۔۔وہ لوگ جنہوں نے بیس برس کسی درس گاہ میں گذارے ہیں، وہ قانوں کی ایک کتاب کیوں پڑھنا نہیں چاہتے۔۔۔
بالخصوص ہمارے پڑھے لکھے ، طبقے کو سمجھنا ہو گا کہ اصولوں کی پاسداری کے علاوہ کوئی اور آپشن ہمارے پاس ہے ہی نہیں۔۔۔۔مزید کھلی سڑکیں کتنی اور کھلی ہو سکتی ہیں، کتنے پل اور بنائے جا سکتے ہیں؟ ان سے ہٹ کر اگر ہم ترتیب میں آ جائیں، قطار میں لگنا سیکھ جائیں، تھوڑے صبر کا مظاہرہ کریں تو سبھی کو سہولت ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان باتوں کو پڑھی لکھی اکثریت سمجھتی ہے ، لیکن جونہی سڑک پر نکلتی ہے ان کے اندر کا ان پڑھ، اور جاہل ڈرائیور باہر آ جاتا ہے ،یا پھر جیسا دیس ویسا بھیس، یہ خیال بھی غالب ہے کہ اکثر لوگ اس محلول کا حصہ ہونے کے لئے مدافعاتی قسم کے ڈرائیور بن جاتے ہیں اور اپنے تئیں ضمیر کو یوں مطمئن کر لیتے ہیں کہ یہاں کوئی میرے لیے نہیں رکتا تو میں کسی کے لئے کیوں رکوں؟۔۔۔میری سوچ کے مطابق پاکستان میں نوے فیصد لوگ ٹریفک قوانین سے نا آشنا ہیں۔ ان کی بڑی وجہ ٹریفک قوانین سے متعلق تعلیم کا نہ ہونا ہی ہے۔۔۔ٹریفک کے متعلق کبھی پڑھایا یا بتایا ہی نہیں جاتا۔۔۔پاکستان میں کوئی ڈرائیور اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ کس عذاب میں گاڑی چلاتا ہے۔۔کیونکہ اس کو ہر طرف سے اپنی گاڑی کو خود ہی بچانا ہے۔۔۔کوئی من چلا دائیں بائیں سے ۔۔۔یا فٹ پاتھ کے اوپر سے گذر کر کہیں سے بھی آپ کے سامنے آ سکتا ہے۔۔۔لوگ ہارن دو اور راستہ لو کے گھٹیا اصول پر عمل پیرا ہیں۔۔۔لوگ سمجھتے ہیں کہ یہی قانونی طریقہ کہ کسی کو راہ سے ہٹایا جائے۔انتہائی افسوس کے بات یہ ہے کہ روزانہ درجنوں لوگ ٹریفک حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔۔۔اور ہم لوگ اس کو خدا کی رضا سے تعبیر کرکے خاموش ہو جاتے ہیں۔۔خدا کے لئے اس مجرمانہ غفلت سے باز آئیے۔۔۔اور طے کیجئے کہ ہم ان اصول و ضوابط کو اپنائیں جن سے اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاطت کی جا سکے۔۔۔
وہ رہنما اصول جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے نظام ٹریفک کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور دوسروں کئے محفوظ ڈرائیور بن سکتے ہیں ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
ٹریفک کے قوانین کو بچوں کے نصاب کاحصہ بنایا جائے
سکولوں پر یہ لازم ہو کہ وہ بچوں کو سڑک پر چلنے کے آداب اور قوانیں سے عملی طور پر روشناس کرائیں۔
ڈرائیونگ لائیسنس کو ایک مقدس ڈاکومنٹ کا درجہ دیا دیا جو قومی شناختی کارڈ کے برابر تصور ہو لیکن اس کا حصول مشکل بنایا جائے اور اس پر کسی قسم کا کمپرومائز نہ کیا جائے۔
ڈرائیونگ سکولز کو ترویج دی جائے اور ہر ڈرائیور کے لئے لازم ہو کہ وہ کسی ماہر ڈائیور کی زیر نگرانی چند گھنٹے گاڑی ضرور چلائے۔
حکومت پرائیویٹ اداروں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ ڈرائیونگ کے لئے تربیتی مراکز قائم کرسکیں۔
سڑک پر عملی امتحان کے بغیر کسی کو ڈرائیونگ لائیسنس نہ دیا جائے۔مثلا یہاں ڈنمارک میں ایک ڈرائیور کو ایک عام گاڑی کا لائسنس لینے کے لئے تھیوری اور پریکٹیکل کے باون اسباق پڑھنے ہوتے ہیں،ان باون اسباق میں چوبیس اسباق پریکٹیکل ڈرائیونگ کے ہوتے ہیں جن میں ڈرائیور کو ہر طرح کی صورت حال میں گاڑی چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔
تھیوری کا امتحان پچیس سوالوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں سوال و جواب اور تصاویر کی مدد سے آپ کو ڈرائیونگ کی متعلق مختلف سچوئشنز میں ردعمل کے بارے میں آپ کا علم جانا جاتا ہے۔ پچیس میں سے کم ازکم بیس سوال لازما ٹھیک ہونے چاہییں۔ اس کے بعد پولیس کے آفیسر کے ساتھ بیٹھ کر گاڑی چلانا ہوتی ہے۔ جو کم از کم آدھ گھنٹہ آپ سے
مختلف قسم کی سڑکوں پر گاڑی چلوا کر دیکھتا ہے کہ آیا آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو ڈرائیونگ لائسنس دیا جائے۔
پاکستان میں محفوظ ڈرائیونگ کے خواب کی ترویج کے لئے ہم نے ایک فیس بک صفحہ کی بنیاد رکھی ہے۔ آپ بھی ہمارے ہم خیال بن کر اس پیغام کو دوسروں تک پہچانے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
https://www.facebook.com/Safe-Driving-in-Pakistan-490126737715869/
یہ بلاگ نیو نیٹ ورک پر چھپ چکا ہے۔ محفوظ ڈرائیونگ
تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
بس ایسے ہی جب سے پاکستان سے باہر آیا ہوں ، ٹریفک کا بے ہنگم شور کچھ کم پڑ گیا ہے، ایسا نہیں کہ جہاں میں ہوں وہاں گاڑی کوئی نہیں چلاتا یا گاڑیوں کی لمبی قطاریں نہیں لگتیں۔۔۔یہاں بھی گاڑیاں خوب چلتی ہیں مگر ہارن کی آواز سنائی نہیں دیتی۔۔۔۔لوگ دفتروں میں آتے جاتے ہیں، کام بھی کرتے ہیں اور خاندان بھی پالتے ہیں مگر ان کے عادات و اطوار میں بے چینی بھری تیزی نہیں ہوتی۔۔۔خود میں بھی لاہور کا ٹریفک کا حصہ رہا ہوں، اسی شہر میں گاڑی چلانے کا آغاز کیا۔ اور خدا تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کسی کے حادثہ کا باعث نہیں بنا اور کبھی کسی ٹریفک کے حادثہ سے بھی محفوظ رہا۔
پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس کیسے بنتے ہیں، اس پرایک ٹی وی پروگرام نے تجرباتی طور پر ایک اندھے کے لئے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر کے دکھایا تھا۔ گو کہ کچھ سالوں سے اس نظام میں کافی بہتری لائی گئی ہے مگر پھر بھی ہمارے ملک کو قانون و قوائد کے پابند ڈرائیورز کی اشد ضرورت ہے۔
اکستان کی سڑکوں پر بظاہر پڑھے لکھے نظر آنے والے ان پڑھ ڈرائیورز کی بھر مار ہے، کسی کو خبر نہیں کہ کہاں رکنا ہے، اور کہا ں قیام کرنا ہے،کس قطار میں چلنا ہے اور کس گاڑی سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے، سب کو بس ایک دھن ہے کہ کیسے آگے والی گاڑی سے آگے نکلا جا سکتا ہے، آگے لمبی قطار ہے یا لمبی گاڑی ، پیچھے والے ڈرائیور کو بس ہارن بجانا آتا ہے یا لائیٹوں سے اشارہ کرنا۔۔۔۔نجانے انہیں کس نے بتا رکھا ہے کہ لائیٹوں سےلگاتار اور باربار اشارہ دینے کامطلب راستہ مانگنا ہے۔۔۔۔۔۔وہ لوگ جنہوں نے بیس برس کسی درس گاہ میں گذارے ہیں، وہ قانوں کی ایک کتاب کیوں پڑھنا نہیں چاہتے۔۔۔
بالخصوص ہمارے پڑھے لکھے ، طبقے کو سمجھنا ہو گا کہ اصولوں کی پاسداری کے علاوہ کوئی اور آپشن ہمارے پاس ہے ہی نہیں۔۔۔۔مزید کھلی سڑکیں کتنی اور کھلی ہو سکتی ہیں، کتنے پل اور بنائے جا سکتے ہیں؟ ان سے ہٹ کر اگر ہم ترتیب میں آ جائیں، قطار میں لگنا سیکھ جائیں، تھوڑے صبر کا مظاہرہ کریں تو سبھی کو سہولت ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان باتوں کو پڑھی لکھی اکثریت سمجھتی ہے ، لیکن جونہی سڑک پر نکلتی ہے ان کے اندر کا ان پڑھ، اور جاہل ڈرائیور باہر آ جاتا ہے ،یا پھر جیسا دیس ویسا بھیس، یہ خیال بھی غالب ہے کہ اکثر لوگ اس محلول کا حصہ ہونے کے لئے مدافعاتی قسم کے ڈرائیور بن جاتے ہیں اور اپنے تئیں ضمیر کو یوں مطمئن کر لیتے ہیں کہ یہاں کوئی میرے لیے نہیں رکتا تو میں کسی کے لئے کیوں رکوں؟۔۔۔میری سوچ کے مطابق پاکستان میں نوے فیصد لوگ ٹریفک قوانین سے نا آشنا ہیں۔ ان کی بڑی وجہ ٹریفک قوانین سے متعلق تعلیم کا نہ ہونا ہی ہے۔۔۔ٹریفک کے متعلق کبھی پڑھایا یا بتایا ہی نہیں جاتا۔۔۔پاکستان میں کوئی ڈرائیور اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ کس عذاب میں گاڑی چلاتا ہے۔۔کیونکہ اس کو ہر طرف سے اپنی گاڑی کو خود ہی بچانا ہے۔۔۔کوئی من چلا دائیں بائیں سے ۔۔۔یا فٹ پاتھ کے اوپر سے گذر کر کہیں سے بھی آپ کے سامنے آ سکتا ہے۔۔۔لوگ ہارن دو اور راستہ لو کے گھٹیا اصول پر عمل پیرا ہیں۔۔۔لوگ سمجھتے ہیں کہ یہی قانونی طریقہ کہ کسی کو راہ سے ہٹایا جائے۔انتہائی افسوس کے بات یہ ہے کہ روزانہ درجنوں لوگ ٹریفک حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔۔۔اور ہم لوگ اس کو خدا کی رضا سے تعبیر کرکے خاموش ہو جاتے ہیں۔۔خدا کے لئے اس مجرمانہ غفلت سے باز آئیے۔۔۔اور طے کیجئے کہ ہم ان اصول و ضوابط کو اپنائیں جن سے اپنی اور دوسروں کی جان کی حفاطت کی جا سکے۔۔۔
وہ رہنما اصول جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے نظام ٹریفک کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور دوسروں کئے محفوظ ڈرائیور بن سکتے ہیں ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
ٹریفک کے قوانین کو بچوں کے نصاب کاحصہ بنایا جائے
سڑک پر چلنا۔۔۔ایک ڈینش سکول کے بچے |
ڈرائیونگ لائیسنس کو ایک مقدس ڈاکومنٹ کا درجہ دیا دیا جو قومی شناختی کارڈ کے برابر تصور ہو لیکن اس کا حصول مشکل بنایا جائے اور اس پر کسی قسم کا کمپرومائز نہ کیا جائے۔
ڈرائیونگ سکولز کو ترویج دی جائے اور ہر ڈرائیور کے لئے لازم ہو کہ وہ کسی ماہر ڈائیور کی زیر نگرانی چند گھنٹے گاڑی ضرور چلائے۔
حکومت پرائیویٹ اداروں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ ڈرائیونگ کے لئے تربیتی مراکز قائم کرسکیں۔
سڑک پر عملی امتحان کے بغیر کسی کو ڈرائیونگ لائیسنس نہ دیا جائے۔مثلا یہاں ڈنمارک میں ایک ڈرائیور کو ایک عام گاڑی کا لائسنس لینے کے لئے تھیوری اور پریکٹیکل کے باون اسباق پڑھنے ہوتے ہیں،ان باون اسباق میں چوبیس اسباق پریکٹیکل ڈرائیونگ کے ہوتے ہیں جن میں ڈرائیور کو ہر طرح کی صورت حال میں گاڑی چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔
تھیوری کا امتحان پچیس سوالوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں سوال و جواب اور تصاویر کی مدد سے آپ کو ڈرائیونگ کی متعلق مختلف سچوئشنز میں ردعمل کے بارے میں آپ کا علم جانا جاتا ہے۔ پچیس میں سے کم ازکم بیس سوال لازما ٹھیک ہونے چاہییں۔ اس کے بعد پولیس کے آفیسر کے ساتھ بیٹھ کر گاڑی چلانا ہوتی ہے۔ جو کم از کم آدھ گھنٹہ آپ سے
مختلف قسم کی سڑکوں پر گاڑی چلوا کر دیکھتا ہے کہ آیا آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو ڈرائیونگ لائسنس دیا جائے۔
پاکستان میں محفوظ ڈرائیونگ کے خواب کی ترویج کے لئے ہم نے ایک فیس بک صفحہ کی بنیاد رکھی ہے۔ آپ بھی ہمارے ہم خیال بن کر اس پیغام کو دوسروں تک پہچانے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
https://www.facebook.com/Safe-Driving-in-Pakistan-490126737715869/
یہ بلاگ نیو نیٹ ورک پر چھپ چکا ہے۔ محفوظ ڈرائیونگ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں