ان پڑھ اسمبلیوں میں اور پی ایچ ڈی سڑکوں پر

گذشتہ روز پی ایچ ڈی  ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی نوزائیدہ تنظیم کی طرف سے فیصل آباد ضلع کونسل کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، کیونکہ ان ڈاکٹروں کے پاس کوئی ہسپتال ایمرجنسی بند کرنے کا اختیار نہ تھا، اس لئے ان کی آواز سننے والا شاید ہی کوئی ہو، ویسے بھی جو مٹھی بھر اکٹھے ہوئے تھے، ان کی آواز بھی خیر کتنی کی ہو سکتی ہے۔ اور ایسا نظام حکومت جو بندوں کو گنا کرتا ہے تولا نہیں کرتا وہاں ان باشعور اور باوزن لوگوں کو کون خاطر میں لایا ہو گا۔
کہتے تھے کسی زمانے میں کوئی قتل ہو جاتا تھا تو سرخ آندھیاں آیا کرتی تھیں، کسی ایک ظلم پر آسمان پکار اٹھتا تھا، بجلیاں گرجا کرتی تھیں اور بارشیں امڈ کر برستی تھیں، لیکن فیصل آباد کی اس گرم دوپہر میں  ملک و قوم کے وقار کو لو لگتی رہی لیکن کوئی آنکھ اشک بار نہ ہوئی، آسمان نہ گرا، زمین نہ پھٹی، کہ ملک پاکستان میں اعلی ترین تعلیم کے حامل لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لئے روزگار کی تلاش میں سڑکوں پر نکل آئے تھے، یہ چند لوگ جنہیں سرمایہ افتخار ہونا چاہیے تھا، جنہیں تاج میں  سرخاب کے پر کی طرح سجایا جانا تھا، جنہیں عزت و افتخار کی مسند پر بٹھایا جانا تھا، وقت انہی لوگوں پر اپنے حقوق کے لئے شاہراوں پر لے آیا۔

شاید ملک کی بدقسمتی کے عروج کو یہ دن بھی دیکھنا تھا، یہ فقرہ جو ان احتجاج کرنے والوں کے بینر پر لکھا ہوا تھا ، کہ ان پڑھ اسمبلیوں میں اور پی ایچ ڈی سڑکوں پر ۔۔۔اس نوحے کا عنوان ہے جس کا حرف حرف پڑھنے لکھے لوگوں کی آرزوں کے قتل سے کشید ہوا ہے۔ پاکستان میں نظام تعلیم بدترین ہے کے بلاگ کے بعد سے درجنوں لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا، اور ہر کسی کی کہانی دل پر گھونسے برساتی ہے، سچ کہیے تو میری کئی دنوں کی نیند اجڑ چکی کہ جو ملک اپنے ملک کے قابل ترین لوگوں کو بے قیمت کرنے پر تلا ہو اس کی ترقی  کے خواب میں رنگ کیونکر بھرے گا۔

ایک طرف کئی سرکاری اہلکار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کو ابھی کئی ہزار پی ایچ ڈی درکار ہیں اور دوسری طرف جو پی ایچ ڈی پہلے سے موجود ہیں ان کو روزگار کے لئے کہیں ایڈجسٹ نہیں کیا جا رہا۔ پہلے کسی زمانے میں لوگ میٹرک کی تعلیم کے  بعد روزگار کے حصول کا خواب دیکھا کرتے تھے، پھر ایف اے کی تعلیم نوکری کی ضامن بنی، پھر لوگ بی ایس سی کو شرط روزگار قراد دینے لگے، پھر ایسا وقت آیا کہ بہت سے لوگ ماسٹرز کی تعلیم حاصل کرنے کو گارنٹی کہتے تھے، لیکن یہ کیسا وقت آ گیا ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی بے روزگاری کے دن دیکھنے پڑیں گے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس دن سے متعلقہ شعبہ میں پی ایچ ڈی کا آغاز ہوا ہے اس دن سے اس شخص کے روزگار کی سمت متعین کردی جاتی، جیسے مہذب دنیا میں انڈسٹریل پی ایچ ڈی کا ایک نظریہ پایا جاتا ہے، کہ کوئی بھی انڈسٹری اپنے پڑھے لکھے ملازم کو یونیورسٹی کے ساتھ مل کر پی ایچ ڈی کی پیشکش کرتی ہے اور اس میں کمپنی پہلے دن سے اس ملازم کے سارے اخراجات برداشت کرتی ہے، اور اس کے بعد وہ کسی یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کسی ایسے عملی منصوبے پر پی ایچ ڈی کرتا ہے جس کو وہ کمپنی اپنے کاروبار کے لئے ترویج دینا چاہتی ہے، اور یوں تین چار سال بعد کمپنی کے پاس ایک اعلی مہارت والا ملازم ہوتا ہے جو نئے تجربات سے لیس ہوتا ہے۔
لیکن پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر کتنے پی ایچ ڈی لوگوں کو سموئے ہوئے تو اس کا جواب یوں ہے کہ پی ایچ ڈی لوگ ہمارے پاکستانی پرائیویٹ سیکٹر میں نہ ہونے کے برابر ہیں، اور بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں، جب سیٹھ کو دس بیس ہزار میں ہر فن مولا قسم کے ملازم دستیاب ہوں تو ایک اعلی ترین تعلیم یافتہ شخص کو زیادہ مراعات اور زیادہ تنخواہ دینے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا کسی طرح ان پرائیویٹ کمپنیوں کو پابند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے بزنس والیم کے حساب سے پی ایچ ڈی لوگوں کو ایک خاص معیار کے حساب سے مراعات دے کو ایڈجسٹ کریں گے؟ کیا پنجاب میں معیار تعلیم بہتر کرنے موٹر سائیکلسٹ فوجیوں کی جگہ بہتر مراعات والے ایجوکیشن آفیسرز کی صورت ان ہونہار لوگوں کو ایڈجسٹ نہیں کیا جا سکتا؟ ہر ضلع کی انتظامیہ پر فرض قرار دے دیا جائے کہ ان کے ضلع میں جتنے لوگ پی ایچ ڈی ہیں ان کو جب تک کوئی نوکری نہیں ملتی کسی مشاورتی کام میں ساتھ شامل کرکے ایک کم ازکم اعزازیہ مقرر کردیا جائے؟
غرضیکہ اگر کوئی سوچے تو درجنوں ذرائع ایسے نکالے جا سکتے ہیں جس طرح ان پڑھے لکھے لوگوں سے فیض حاصل کیا جا سکتا ہے، ان کی انرجی کو چینلائز کیا جا سکتا ہے، یہ لوگ جو باہر کے ملکوں سے سیکھ کر آئے ہیں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، آجکل پاکستان میں  کارپوریٹ ٹرینگز کا اہتمام ہونے لگا ہے جس میں ابھی تک غیر معیاری ٹرینرز رٹی رٹائی باتیں لون مرچ مصالحے لگا کر لوگوں کی آتما کو شانتی بانٹتے نظر آتے ہیں ان کی جگہ وطن واپس پلٹ لوگوں سے ان کی انڈسٹری کے تجربات پر مشتمل ٹرینگز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، ہر متعلقہ انڈسٹری اپنے متعلقہ شعبہ میں پی ایچ ڈی کرنے والے کو جانتی ہو اور جونہی وہ واپس پلٹے ملک کی انڈسٹری اس کے تجربات سے رس کشید کرنے کی کوشش کرے، شاید پاکستان میں جو ریسرچ ہو کر ہو اس پر آپ کو اعتبار نہ ہو لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جس نے دنیا کی مانی ہوئی یونیورسٹیوں سے فیض حاصل کیا ہے، اس کے نقطہ نظر میں ایک چمک ضرور آتی ہے، کیا ملک کے سمجھ بوجھ رکھنے والے اس خزانے کو در بدر ہونے کے لئے چھوڑ دیں گے؟

سڑکوں کے کنارے اپنے حقوق کی جد و جہد کی آواز اٹھاتے ہوئے یہ لوگ اندر سے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس تو سوائے تعلیم کے ہتھیار بھی کوئی نہیں، یہ تو سوائے اخلاقی دباو کے پاکستانی مزاج کے کسی اور حیلے سے بھی آشنا نہیں، ان کی اس نقار خانے میں کون سنے گا؟ ایک دل جلے نے کہا کہ ہم روزگار نہ ملا تو ہم خود کشی کر لیں گے، میں ملک کے ارباب اختیار سے سوال کرتا ہوں کہ اخر کیوں شور مچائے بغیر ، سڑکوں کو بند کئے بغیر، لوگوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑے کئے بغیر کسی کی داد رسی نہیں کی جاتی؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں