کیا وہ سردیوں کی دھوپ تھی؟

وہ گرمیوں کی چھاوں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی

احمد فراز کی ایک نظم کے مصرعے کسی سانولی سلونی حسینہ کی یاد میں ہیں، جن کی یاد انہیں ہر دم نہیں کبھی کبھار آیا کرتی ہے ، ہماری دیسی شاعری میں سردیوں کی دھوپ اپنے اندر ایسی گرمی رکھتی ہے کہ آدمی کو موسم سرما بھی لطف دینے لگتا ہے۔۔۔۔لیکن ہمارے ہاں آجکل سکینڈے نیویا میں جیس سردی پڑ رہی ہے وہ دیکھنے میں بہت پرلطف دکھائی دیتی ہے، کھڑکی سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ کیا مزیدار دھوپ نکلی ہوئی ہے، لیکن باہر دھوپ میں نکلو تو عملی طور پر قلفی جم جائے، کل شام باہر نکلا تو مائنس چھ تک درجہ حرارت تھا، لیکن دھوپ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ باہر نکلوں تو جسم کو دیسی سردیوں کی دھوپ کا سا مزہ آئے گا۔
کچھ دن پہلے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ہمارے ادب میں دوزخ کا تصور ایک ایسی جگہ کا جو بہت گرم ہے، جو آگ سے بھری ہوئی ہے جبکہ یورپ کے ادب میں دوزخ کا تصور ایک ایسی جگہ کا بھی ہے جو بہت زیادہ سرد ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں