حلوہ ، ن لیگ کے دوستوں کے لئے۔۔۔۔۔۔۔

ایک نابینا حافظ صاحب حلوے کے بہت شوقین تھے۔۔۔۔کہیں دعوتِ حلوہ تھی کسی ساتھی سنگی کو کہنے لگے ، جب لوگ کھانا شروع کر دیں تو مجھے ہلکی سی کہنی لگا دینا، اور ذرا کام تیز ہو تو تھوڑی تیز کہنی لگا دینا۔۔۔اگر گھمسان کا رن پڑ جائے تو   جھنجھوڑ دینا۔۔۔۔۔دعوت میں پہنچے تو خوشبووں نے بے حال سا کردیا۔۔۔۔سامنے پلیٹوں اور پراتوں میں حلوہ سج گیا۔۔
۔ساتھ والے نے تھوڑا پہلو بدلا تو کہنی حافظ صاحب کے جا لگی۔۔حافظ صاحب نے ایک انگلی نکالی اور حلوے کی پلیٹ میں ڈال دی۔۔۔اور حلوہ  کھانا شروع کر دیا۔۔۔۔حاظرین نے کن انکھیوں سے دیکھا کہ ابھی بسم اللہ نہیں ہوئی اور حافظ صاحب شروع ہو گئے۔۔۔۔ساتھ والے نے حافظ جی کو تھوڑی زور سے کہنی لگائی تو حافظ صاحب نے پورا ہاتھ حلوے کی پلیٹ میں ڈالا اور سپیڈ بھی تیز کردی۔۔۔ساتھ والے نے ذرا جھنجھوڑا تو حافظ صاحب نے دونوں ہاتھ حلوے میں ڈال دئے اور ساتھ ساتھ شور بھی مچانے لگے۔۔۔۔او لوکی کھا گئے میں رہ گیا۔۔۔او لوکی کھا کھا گئے میں رہ گیا (یعنی لوگ کھا گئے اور میں بھوکا رہ گیا)

آجکل ہمارے ن لیگ کے کرم فرما۔۔ دن رات تحریک انصاف کو گالیاں نکالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔۔او لوکو ویکھو مینوں گالاں کڈ دتیاں۔۔۔۔۔۔
درجنوں کے حساب سے عمران خان کے سے نقرت کے اظہار کے گروپ بنائے ہیں، جہاں دنیا جہان کے تصویروں کو فوٹو شاپ کر کے وہ اپنی بے پایاں الفت کا اظہار کرتے تھے اور ساتھ ساتھ شور بھی برپا کرتے ہیں۔۔۔۔او ویکھو لوکو مینوں گالاں کڈ دتیاں۔۔۔۔۔۔

ن لیگ اور تحریک انصاف کے نفرت پھیلانے والے گروپس کا تقابلی جائزہ ہم پہلے بھی کئی دفعہ پیش کر چکے ہیں، اگر یقین نہ آئے تو نیچے دیئے گئے لنکس میں دیکھ سکتے ہیں، ،
 اس لئے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں۔

تحریک انصاف بمقابلہ ن لیگ۔۔۔۔۔تصویری مقابلہ۔۔۔۔بس کرو یار

پیارے بھائی ڈاکٹر ساجد کے لئے

گالیاں، قاسمی صاحب اور انٹرنیٹ جنریشن

اعتبار کا قاتل معاشرہ ۔۔۔۔۔۔۔

اسے کچھ ادھار چاہیے تھا، پرانا جاننے والا تھا۔۔۔بہت سال ایک دوسرے کے ہم مکتب بھی رہے تھے، رقم کچھ زیادہ تھی، دینے والے کی استطاعت سے بھی کچھ زیادہ، اس لئے تو وہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔تعلق اتنا پرانا تھا کہ انکار گوارا نہ تھا، ہاں کہنے کی بھی ہمت نہ تھی، مانگنے والے نے آخری پتہ پھینکا۔۔۔میری ضرورت اشد ہے، میری مدد کرو۔۔۔میں دو تین ماہ میں لو ٹا دوں گا ، خواہ مجھے اپنی بیوی کا زیور ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔۔۔دینے والے نے ساری جیب جھاڑ دی، کسی ایک آدھ قریبی کی بھی کچھ رقم ملا کر ضرورت مند کی ضرورت پوری کر دی۔۔۔۔لیکن اب سال گذر گیا۔۔۔چھپن چھپائی کا کھیل چل رہا ہے، لینے والے کے فون اور رابطے ادھورے سے ہیں، کچھ وعدہ فردا کی باز گشت واپس آتی ہے۔۔۔لیکن ادھار کی رقم کا دور دور تک نشان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے یورپ کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔۔۔اور ایک ضامن درکار تھا کہ یہ پڑھے گا اور ضامن اس کے اخراجات اٹھائے گا۔۔بتایا یہ گیا تھا کہ ضامن صرف کاغذات کا پیٹ بھرنے کے لئے ہوگا۔۔۔اخراجات وہ خود اپنے کرے گا۔۔۔پھر اس کا داخلہ ہوا، کچھ عرصے بعد ضامن کو دوہزار پاونڈ ادا کرنے کا ایک خط موصول ہوا، کیونکہ جس کی ضمانت دی گئی تھی وہ کلاس چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور اس کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سویڈن کی ایک یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا، اسے اپنے کسی بھائی کی بنک گارنٹی کے لئے کافی رقم کی ضرورت تھی، اپنے ہم مکتب پاکستانیوں سے اس نے مدد مانگی ، سب نے جتنی جتنی رقم اکاونٹ میں تھی اس کو ٹرانسفر کردی۔۔۔۔رقم لینے والے نے دو تین دن بعد رقم لوٹانے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ایک ہفتے بعد اس نے سب دوستوں سے کہا وہ رقم ویزہ کے لئے کسی ایجنٹ کو دی گئی تھی اور ایجنٹ بھاگ گیا ہے، اس لئے اب اسے معاف کردیا جائے۔۔۔۔۔
ایسے واقعات میں نام اور مقام تبدیل ہوتے ہیں، تھوڑا بہت متن کا فرق نکلتا ہے۔۔۔اور کسی نہ کسی انداز میں آپ میں ہر کسی کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہوتے ہیں، ہماری پاکستانی سوسائٹی میں یہ وبا اپنے عروج پر ہے۔۔۔لوگ ادھار مانگ کر بھول جاتے ہیں، اور یاد کروانے پر آپ کو شرمندہ کر دیتے ہیں، ۔۔ادھار مانگ کر جینا کئی لوگوں کا لائف سٹائل ٹھہر گیا ہے۔۔۔آپ غور کیجئے لوگ اچانک بڑی محبت سے ملتے ہیں اور دوسرے تیسرے روز آپ سے ادھار مانگ لیتے ہیں۔۔ادھار دینے سے پہلےکی واقفیت اور بعد کی واقفیت کا رنگ بھی ان سمندروں کی طرح ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دو رنگ رکھتے ہیں اور ملتے نہیں۔۔۔۔

ابھی آجکل ایک دوست کو ضامن کی تلاش ہے، بیلجئم کی یہ یونیورسٹی بغیر ضامن داخلہ دینے پر تیار نہیں، میں اس کے ساتھ بیلجیم کی ایمبیسی گیا، لیکن میرے حالات ایمبیسی کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتے ۔۔۔کوئی درجن بھر جاننے والوں کو مدد کی درخواست کر چکا ہوں، کئی ایک نے کہانی سننے کے بعد فون سننا ہی بند کردئے، کئی ایک نے ضامن کی ذمہ داریوں کی ای میل مانگی اور اس کے بعد سے ان سے رابطہ نہ ہوسکا، کچھ دوستوں نے اوپر بیان کی گئی کہانیوں سے ملتی جلتی کہانیاں بیان کیں اور معذرت چاہی۔۔۔۔
سچ پوچھیئے تو ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، کہ کسی کی مدد کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ مدد کل اپنے گلے تو نہیں پڑ جائے گی؟؟؟
مجھے پتہ نہیں کہ اور دوسری معاشرتوں میں مدد کرنے والوں کا حشر کیا ہوتا ہے ، لیکن جو حال ہم پاکستانی ایک دوسرے کا کر چھوڑتے ہیں، اس سے خدا کی پناہ ہے بس۔۔۔۔۔
یہ اعتبار اور اعتماد کے رشتے ہمارے اسلامی معاشرے کا طرہ امتیاز ہیں، ایفائے عہد کی مثالوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے، تین دن ایک جگہ رہ کر کسی کا انتظار کرنے والی ہستی کی کہانی کس نہیں پڑھ رکھی، اور ہمارا تو یہ وطیرہ ٹھہرہ کہ
جانتے تھے دونوں ہی ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے بھی وعدہ کرلیا، میں نے بھی وعدہ کر لیا
۔۔۔لوگ کہتے ہیں میں پانچ منٹ میں آیا اور پانچ گھنٹوں میں بھی نہیں آتے۔۔۔جھوٹ اور وعدہ شکنی ہماری قومی معاشرت کا حصہ بن چکی ہے۔۔۔بات قسموں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔۔اعتبار کی اتنی مٹی پلید ہو چکی ہے کہ اعتبار آتے آتے بھی نہیں آتا۔۔۔۔

پاکستان سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جرمنی کے سنگ عید

ڈنمارک کی سرحد سے منسلک اس جرمن شہر کو خیل لکھا جائے یا کیل، یہ معمہ سب سے پہلا ہے۔۔۔بہرحال انگریزی حروف کے آئی ای اور ایل سے بننے والے اس شہر کو آپ جیسے چاہے پکار سکتے ہیں، یہ شہر اپنی بندرگاہ اور تجارتی دروازے کی حیثیت سے اہم مقام کا حامل ہے، مگر میرے لئے اس کی حیثیت ذرا اور نوعیت کی تھی، میرے پروگرام کی ترتیب کچھ اس طرح سے تھی کہ اس مرتبہ عید محترم  سہیل مخدوم کے ساتھ پڑھی جائے، ان کے پاس گئے تو پتا چلا کہ موصوف پاکستانی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے مقامی صدر بھی ہیں، سو اگلے روز عید کی نماز کے بعد سویوں کی تقسیم کی ایک چھوٹی سی تقریب میں شرکت کا موقع ملا اور حسب روایت صدر صاحب تاخیر سے پہنچے۔۔۔کیونکہ ان کے ڈنمارک سے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔۔۔کچھ پاکستانی طالب علموں سے سرسری سی ملاقات کی کچھ تصاویر پیش خدمت ہیں۔