تیسرے ہفتے تک ہزاروں لوگوں کو دارلحکومت کی سڑکوں پر لا بٹھانے کا کام کسی تنظیمِ بے نظم کے حصے نہیں آ سکتا، ہاں اس کی تعداد پر تبصرے کر کے گفتگو کا رخ تو تبدیل کیا جا سکتا ہے البتہ اس دلیل کے وزن میں کچھ کمی نہیں آتی کہ تحریک کے متوالے اپنی بات منوانے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، تحریک کا کارکنان کو زیادہ دیر بٹھائے رکھنا اور زیادہ لوگوں کو بٹھائے رکھنا ایک کٹھن مرحلہ تھا کیونکہ تحریک انصاف کے چاہنے والوں کی اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے، جو اپنے ضمیر کی آواز پر ایک آدھ دن کا ون ڈے تو کھیلنے کا اہتمام کر سکتے ہیں البتہ ٹیسٹ میچ ان کے لئے بہت ہی نیا تجربہ تھا۔۔۔میں تحریک کے دوستوں کو ثابت قدمی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
وہ نیا پاکستان جس کی تشبیہ سے اچھے خاصے عاقل ، دانشور طبع کے تجزیہ نگار گارہ ، مٹی ، اینٹیں وغیرہ کا حساب شروع کر دیتے ہیں۔۔۔اگر نیا پاکستان بنانا ہو تو کتنے مزدور دن رات کام کریں گےاور کئی ایک تو اپنے سولہ فیصد کمیشن کا حساب بھی لگا لیتے ہیں، جونہی ان کو پتا چلتا ہے معماران قوم تو یہ کام اپنے ہاتھ سے خود ہی کرنے جا رہے ہیں تو اس ان دیکھی عمارت کے گرنے کی پشین گوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔
کیا یہ کم ہے اس دھاندلی زدہ نظام کو تبدیل کرنے کے آغاز کی جانب قدم اٹھایا گیا، وہ جو انتخابات کی چوری میں ملوث ہوں گے، ان کے ہاتھوں کو کاٹا نہ بھی جائے تو ہتھکڑی تو لگ ہی جائے گی، کیا یہ کم گلوبٹ کے رشتہ داروں کو اپنی جان بچانے کے لئے قانون اور اسمبلیوں کا راستہ ہی دیکھنا پڑا، کیا یہ کم ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے ملکی تاریخ میں حاکموں کو جتلا دیا کہ عوام کے حقیقی محافظ ہیں کسی کے زر خرید غلام نہیں، ، آئی جی چیمہ سے لیکر ڈی ایس پی خدیجہ تک ہماری پولیس نے محسوس کیا کہ بس ظلم اس سے زیادہ اور نہیں، کیا بیداری کی یہ لہر کم ہے؟ وہ جن کے پیسوں سے اسمبلی کی دیواروں کو کھڑا کیا گیا تھا وہ بھی ان دیواروں میں لگے دروازوں کو چھو کر محسوس کر گئے، وہ نوجوان جس نے دھوپ میں جلد کو جلنے دیا، بارش میں بدن بھیگنے دیا۔۔وہ مدتوں اس تجربے سے اپنی زندگی کے راستے تراشتا رہے گا ، کیا طاقتور کے سامنے کلمہ حق کہنے والوں نے اپنے آواز کو محسوس نہ کیا ہو گا؟ کیا یہ کم ہے کہ ان کی آواز سنی گئی اور ان کے مسائل کے لئے حکومت اور حواریوں کو سر جوڑنا پڑے۔۔۔
میں داد دیتا ہوں سوچنے والے کو جو موت دکھا کر ان کو بخار پر راضی کر لے گا، ورنہ یہ وہی لوگ ہیں جو چودہ مہینوں میں چار حلقے کھولنے پر تیار نہ تھے ، اب ہاتھ ان کی گردن کی طرف بڑھے ہیں تو سب لوٹا ہوا مال اگلنے کو تیار ہیں۔
وہ نیا پاکستان جس کی تشبیہ سے اچھے خاصے عاقل ، دانشور طبع کے تجزیہ نگار گارہ ، مٹی ، اینٹیں وغیرہ کا حساب شروع کر دیتے ہیں۔۔۔اگر نیا پاکستان بنانا ہو تو کتنے مزدور دن رات کام کریں گےاور کئی ایک تو اپنے سولہ فیصد کمیشن کا حساب بھی لگا لیتے ہیں، جونہی ان کو پتا چلتا ہے معماران قوم تو یہ کام اپنے ہاتھ سے خود ہی کرنے جا رہے ہیں تو اس ان دیکھی عمارت کے گرنے کی پشین گوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔
کیا یہ کم ہے اس دھاندلی زدہ نظام کو تبدیل کرنے کے آغاز کی جانب قدم اٹھایا گیا، وہ جو انتخابات کی چوری میں ملوث ہوں گے، ان کے ہاتھوں کو کاٹا نہ بھی جائے تو ہتھکڑی تو لگ ہی جائے گی، کیا یہ کم گلوبٹ کے رشتہ داروں کو اپنی جان بچانے کے لئے قانون اور اسمبلیوں کا راستہ ہی دیکھنا پڑا، کیا یہ کم ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے ملکی تاریخ میں حاکموں کو جتلا دیا کہ عوام کے حقیقی محافظ ہیں کسی کے زر خرید غلام نہیں، ، آئی جی چیمہ سے لیکر ڈی ایس پی خدیجہ تک ہماری پولیس نے محسوس کیا کہ بس ظلم اس سے زیادہ اور نہیں، کیا بیداری کی یہ لہر کم ہے؟ وہ جن کے پیسوں سے اسمبلی کی دیواروں کو کھڑا کیا گیا تھا وہ بھی ان دیواروں میں لگے دروازوں کو چھو کر محسوس کر گئے، وہ نوجوان جس نے دھوپ میں جلد کو جلنے دیا، بارش میں بدن بھیگنے دیا۔۔وہ مدتوں اس تجربے سے اپنی زندگی کے راستے تراشتا رہے گا ، کیا طاقتور کے سامنے کلمہ حق کہنے والوں نے اپنے آواز کو محسوس نہ کیا ہو گا؟ کیا یہ کم ہے کہ ان کی آواز سنی گئی اور ان کے مسائل کے لئے حکومت اور حواریوں کو سر جوڑنا پڑے۔۔۔
میں داد دیتا ہوں سوچنے والے کو جو موت دکھا کر ان کو بخار پر راضی کر لے گا، ورنہ یہ وہی لوگ ہیں جو چودہ مہینوں میں چار حلقے کھولنے پر تیار نہ تھے ، اب ہاتھ ان کی گردن کی طرف بڑھے ہیں تو سب لوٹا ہوا مال اگلنے کو تیار ہیں۔
بہت اچھے زاویے سے دکھایا ہے آ پ نے تحریک کو۔
جواب دیںحذف کریں