اکثر انٹرنیشل ائیر پورٹس پر مسافروں کی شناخت کے لئے تین سے چار تہوں کی سیکیورٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے ، جبکہ پاکستان میں اس کی تعداد آٹھ سے دس تک ہو سکتی ہے۔ ۔۔۔۔سب سے پہلے آپ ائیرپورٹ کے روانگی ٹرمینل کی طرف آئیں تو آپ کو بتانا ہوتا ہے کہ کس فلائٹ پر جانا ہے ، اس کے بعد جب آپ روانگی والے گیٹ سے اندر جانے لگتے ہیں تو آپ کی ٹکٹ اور پاسپورٹ کی تسلی کی جاتی ہے، اس کے بعد ایک سکینر سے سامان گذارہ جتا ہے، سامان گذارنے کے بعد کسٹم کا عملہ آپ سے ایک انٹرویو کرتا ہے کہ بتا بھائی کتنا مال پانی ساتھ لے جا رہے ہو، کھلے بندوں کہا جاتا ہے، بیگ کھول کر چیک کریں گے، بچنا چاہتے ہو تو کچھ نذر نیاز پیش کرتے جاو، ۔۔آپ کا پاسپورٹ پھر سے دیکھا جاتا ہے۔۔آپ کے سراپے کے بھر پور جائزے کے بعد آپ کو ائیر لائن کے کاونٹر پر جانے کی اجازت ملتی ہے ، جہاں آپ اپنا بکنگ والا سامان وزن کرواتے ہیں۔۔اگر آپ کے سامان کا وزن کچھ زیادہ ہے تو پھر اکیس سو روپے فی کلو کے حساب سے آپ سے بارگین کرتے ہیں، کچھ درمیانی سے قیمت میں سودا طے کر کے آپ کا سامان بک کردیا جاتا ہے۔۔۔۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ صاحب لندن جاتے ہوئے انیس کلو سامان ہاتھ میں لے کر جانا چاہتے تھے۔۔سودا مبلغ ساڑھے چار ہزا ر میں طے ہو گیا۔۔۔۔ان صاحب کو سامان کم کرنے کا کہا گیا تو روغنی نان کا ایک بڑا شاپر نکال کر باہر رکھ دیا۔۔۔۔یہی وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کو لائینوں میں لمبا لگا کر مال بنایا جاتا ہے۔ ۔۔یہی وہ جگہ ہے جہاں آپ اپنے سرکاری تعلقات کی ڈوریاں ہلا کر مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ ۔۔کل کی فلائٹ پی کے 751 ، ، لندن اور مسقط کو جانے والی فلائس سب کی سب تاخیر سے روانہ ہوئی ہیں۔ ۔۔اور ہٹ دھرمی دیکھئے کہ بورڈ سے روانگی کا وقت تک نہیں بدلا جاتا ۔۔یعنی گیارہ بج گئے ہیں اور جہاز کی روانگی کا وقت ابھی تک دس چالیس ہی دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔۔۔۔خیر اسی سامان کی قطار کی طرف چلتے ہیں ۔۔۔جہاں ابھی سامان بک کیا جانا تھا۔۔۔ایک قلی ہمارے پاس تشریف لائے اور آہستگی سے کہا۔۔ایک ہزار روپیہ دیں تو ابھی سامان نکلوا دیتا ہوں۔۔میں نے ساتھ کھڑے عامر صاحب کو آفر کی خبر دی تو قلی نے کہا بھائی دو آدمی ہیں تو دوہزار لگے گا۔۔۔ہم سے ناامید ہو اس نے دیگر لوگوں پر کوشش کی اور کامیاب بھی ٹھہرا۔۔۔ایک گھنٹے کی انتظار کے بعد بھی ہم اسی لاین میں موجود تھے۔۔۔کیونکہ قلی حضرات سفارشیوں اور پیسے والوں کے سامان کو بزنس کلاس کے کاونٹر سے گذار کر نوٹ کھرے کرتے ہیں۔۔اور اکانومی کلاس کی قطار تادم آخر جوں کی توں لگی رہتی ہے۔۔۔اور جب جہاز والے چلنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو متعلقہ فلائٹ کے لئے ڈھنڈیا مچا دی جاتی ہے۔۔۔۔اونچی اونچی آواز میں نعرے لگتے ہیں کہ کوئی فلاں فلائٹ کا مسافر ہے تو فورا آگے آ جائے۔ ۔۔سامان جس بیلٹ پر تولا جاتا ہے۔۔دنیا بھر میں اسی بیلٹ سے خودبخود اگلے سکینر میں چلا جاتا ہے ۔۔۔لیکن یہاں سامان پر ٹیگ لگنے کے بعد اس کو کسی دوسرے کاونٹر پر موجود سکینر کی بیلٹ پر رکھنا ہوتا ہے۔۔۔جس سے مسافروں کا رش ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ۔اس مرحلہ کے بعد مسافر کو پاسپورٹ کنٹرول سے گذارہ جاتا ہے۔۔وہ چھان پھٹک کر آپ کا پاسپورٹ چیک کرتے ہیں۔ اس کو سکین بھی کرتے ہیں، اس کے بعد ایف آئی اے کا ایک کاونٹر ہے۔۔۔جو آپ کی تصویر آپ کے پاسپورٹ کی تصویر سے ملا کر دیکھتے ہیں۔ ۔۔پھر ایک اور سکینر سے گذارا جاتا ہے ، اس سکینر کے ساتھ ہی آپ کے دستی سامان کا ٹیگ پڑا ہوتا ہے، سکینر سے گذرنے کے بعد اس ٹیگ کی پشت پر مہر لگائی جاتی ہے، مزید برآں آپ کے بورڈنگ پاس کی پشت پر بھی ایک مہر لگائی جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ انتظار گاہ میں پہنچ جاتے ہیں، اس کے بعد جب جہاز چلنے کے لئے تیار ہو تو جہاز کا عملہ آپ کے بورڈنگ پاس کی ایک حصہ علیحدہ کر کے آپ کو جہاز کی طرف جانے کی اجازت دیتا ہے۔ جہاز میں داخلے سے پہلے آخری دفعہ آپ کا پاسپورٹ دیکھا جاتا ہے۔ ۔۔پھر ہوسٹس آپ کا بورڈنگ کارڈ دیکھ کر آپ کی سیٹ کی جانب آپ کی راہنمائی کر دیتی ہے۔
اگر اس سیکورٹی چیک کا مقابلہ کسی اور انٹر نیشنل ائیر پورٹ سے کیا جائے تو ۔۔۔۔آپ ڈائیریکٹ متعلقہ ہوائی جہاز کے کاونٹر تک جاتے ہیں۔ جہاں سے آپ کا سامان بک کردیا جاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس بکنگ کا سامان موجود نہیں تو اس کاونٹڑ پر جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ خودکار مشین سے اپنا بورڈنگ پاس نکالیں اور سیکورٹی گیٹ کی طرف چلے جائیں۔ وہاں آپ کا بورڈنگ پاس سکین کرتے ہوئے آپ کا سامان سکینر سے گذارا جاتا ہے۔ اگر سکینر سے گذرتے ہوئے سکینر کچھ نشاندہی کرے تو آپ کی جامہ تلاشی بھی ہوسکتی ہے۔ وہاں سے گذر کر ایمگریشن کے کاونٹڑ پر جایا جاتا ہے اور پھر ائیر لائن کے گیٹ پر بورڈنگ پاس دیکھا جاتا ہے۔ ۔۔
|
پورٹر ٹیگ لے آیا ہے۔ یہ ٹیگ کاونٹڑ پر موجود شخص لگاتا ہے۔ |
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کیونکر اپنایا نہیں جاسکتا ؟۔۔۔پاسپورٹ کنٹرول یا ایف آئی اے کا کاونٹڑ بالکل شروع میں کردیا جائے، اور ساتھ ہی سامان سکینر سے بھی گذار دیا جائے۔ اس کے بعد کہیں بھی پاسپورٹ دوباہ ، سہہ بارہ نہ دیکھا جائے، سامان جہاں تولا جاتا ہے اس بیلٹ کو کار آمد بنا کر وہیں سے بکنگ کے لئے روانہ کر دیا جائے تاکہ مسافر ایک کاونٹر سے دوسرے کاونٹر تک جانے کے لئے رش پیدا نہ کریں۔ ۔۔ایک مسافر کی بکنگ کے وقت کو معیاری کیا جائے اور اگر کوئی کام کرنے والا درمیان میں شفارش یا رشوت کے لئے لوگوں کو صبر کی سولی پر لٹکائے تو ایسے لوگوں کو کڑ ا احتساب کیا جائے۔
ابھی کل کے سفر میں ہمارے ہمسفر سید عامر صاحب نے ایک دو قلی حضرات کو لوگوں کا سامان جلدی نکلوا دینے کے لئے رشوت طلب کرتے، ان کا سامان رکھواتے اور نذرانہ وصول کرتے دیکھا تو رہا نہ گیا۔۔اور وہاں موجود ایک آفیسر کی توجہ اس طرف دلوائی تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کیا ثبوت ہے تو عامر صاحب نے جھٹ سے اپنے فون سے بنائی ہوئی تصاویر دکھا دیں۔ ان تصاویر کو دیکھنے کے بعد آفیسر نے جواب دیا کہ ان تصاویر میں روپے تو نظر نہیں آ رہے۔
باقی سہولیات ، صفائی ، انتطامیہ کا رویہ وٖغیرہ کے معاملات کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھے جائیں۔ اگر صرف اور صرف ان دس مراحل کو کم کرکے چار پانچ پر لے آیا جائے تو کیا کہنے۔۔۔۔۔
|
میری مٹھی میں کیا ہے؟؟ ناز پان مصالحہ؟ |
|
جہاں یہ قلی موجود ہے۔ اس جگہ تک کسی پورٹر کو جانے کی اجازت نہیں۔ |
نوٹ۔ یہ تحریر 15 اکتوبر کی رات کو آغاز کی تھی، اس لئے واقعات کو پندرہ اکتوبر 2014 کے حوالے سے جانچا جا سکتا ہے۔ تصاویر کے لئے سید عامر صاحب کا شکریہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں