کوشش ناتمام سے زندہ یہ زندگی ، اس راہ میں مقام بے محل ہے اور پوشیدہ قرار میں اجل ہے کا درس لئےصبح اور شام کے سفر پر گامزن ہے، ناجانے کون سے لہریں ہمیں اٹھائے پھرتی ہیں، کبھی ساحل پر پھینک دیتی ہیں، اور کبھی غوطے پر غوطہ۔۔۔۔سچ کہیے تو میں اپنی زندگی کو سمجھ نہیں پایا، بہت محدود وقت میں بہت کچھ کر لینے کی ہوس میں دو چار قدم بھی سیدھے نہیں اٹھتے۔۔۔ہمارے ناصح یہ فرماتے ہیں کہ راستوں کا انتخاب غلط تو منزل چہ معنی ـ
ہر صبح امید کے ٹانکوں سے ارادوں پر پیوند لگاتا ہوں، اور ہر شام کسی آرزو کا جنازہ اٹھاتا ہوں، خود کو دیر تلک سمجھاتا ہوں کہ ان کو دیکھ جنہوں نے گھر بار کی پرواہ نہیں کی دنیا نے ان کی پرواہ نہیں کی، روز اب کوئی اور خواب نہ دیکھنے کی تمنا لے کر آنکھ لگاتا ہوں تو اگلی صبح کوئی نئی امید اپنے جوبن کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔اب تو حد یہ ہے کہ میں ان ہچکولوں کو زندگی سمجھ لیا ہے ہے۔۔۔۔۔وہ جو فیصل آباد کے شاعر نے کہا تھا
اس لئے حالت مسمار میں رکھی ہوئی ہے
زندگی شاخ نے دیوار میں رکھی ہوئی ہے۔۔
تو بس ایسے ہی اس سفر کو اختیار کر لیا ہے، مجھے اس سفر میں میں زندگی محسوس ہوتی ہے ، کسی نے کہا تھا کہ
چین اب کہاں لمحہ بھر رہا ہے
سفر میرا تعاقب کر رہا ہے
میں اس بھید کو پا چکا ہوں کہ زندگی کے سارے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے، بس انسان خواہش اور کوشش کے اختیار کو لیکر صبح امید اور شام آرزو کے دائیرے میں گھومتا رہتا ہے ، اور کسی روز اس دھاگے کو توڑ کو بہت دور جا گرتا ہے۔ میرے ذہن پر چھائی بے شمار خواہشوں کی سمت کچھ دوستوں کے اخلاص کی خوشبو سے بندھی ہوئی ہے۔ ۔۔۔مجھ جیسے جن کو اپنی زندگی خرچ کرنے لے لئے کوئی نہ کوئی دکان ہمیشہ درکار ہوتی ہے۔۔۔۔اپنی زندگی چھوڑ کر لوگوں کی زندگی گذارنے لگ جاتے ہیں۔
بس ایسے ہی ڈاکٹر بنیامین صاحب کا غریب بچوں کے لئے سکول کا منصوبہ مجھے اپنا ہی منصوبہ لگتا ہے۔ اپنی جیب سے آغاز گیارہ سو ڈینش کرون سے کر چکا ہوں۔۔اب آپ کی طرف دیکھتا ہوں۔۔۔۔وہ امید جو دوستوں نے میڈیکل کیمپ کے لئے فنڈ دیتے ہوئے توڑی تھی۔۔۔اس کے جنازے پر ماتم کرنے کا وقت نہیں۔۔۔ایک نئی امید دروازے پر دستک کناں ہے۔۔ایک نیا خواب۔۔۔غریب بچوں کے لئے مفت تعلیم کا خواب۔۔۔ایک ایسا گاوں جہاں سکول نہیں۔۔اپنے گھر میں سکول کی جگہ بنا لینے کا جذبہ۔۔۔اور اس کو چلانے کے لئے دوستوں کے دروازوں پر دستک۔۔۔۔۔۔۔
یہ امید میرے اختیار میں ہے، کوشش میں کر رہا ہوں۔۔۔مجھے اس شہر سے صرف بارہ لوگ درکار ہیں جو دو سو کرون فی مہینہ اس سکول کو چلانے کے لئے مدد کر سکیں۔۔۔۔۔اس سکول کے پراجیکٹ کو مزید جاننے کے لئے
سکول کے فیس بک پیج
https://www.facebook.com/pages/Free-School-Project-of-Rays-Foundation-Agri-Hunt/334267290115938
ڈاکٹر بنیامین صاحب سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
ہر صبح امید کے ٹانکوں سے ارادوں پر پیوند لگاتا ہوں، اور ہر شام کسی آرزو کا جنازہ اٹھاتا ہوں، خود کو دیر تلک سمجھاتا ہوں کہ ان کو دیکھ جنہوں نے گھر بار کی پرواہ نہیں کی دنیا نے ان کی پرواہ نہیں کی، روز اب کوئی اور خواب نہ دیکھنے کی تمنا لے کر آنکھ لگاتا ہوں تو اگلی صبح کوئی نئی امید اپنے جوبن کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔اب تو حد یہ ہے کہ میں ان ہچکولوں کو زندگی سمجھ لیا ہے ہے۔۔۔۔۔وہ جو فیصل آباد کے شاعر نے کہا تھا
اس لئے حالت مسمار میں رکھی ہوئی ہے
زندگی شاخ نے دیوار میں رکھی ہوئی ہے۔۔
تو بس ایسے ہی اس سفر کو اختیار کر لیا ہے، مجھے اس سفر میں میں زندگی محسوس ہوتی ہے ، کسی نے کہا تھا کہ
چین اب کہاں لمحہ بھر رہا ہے
سفر میرا تعاقب کر رہا ہے
میں اس بھید کو پا چکا ہوں کہ زندگی کے سارے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے، بس انسان خواہش اور کوشش کے اختیار کو لیکر صبح امید اور شام آرزو کے دائیرے میں گھومتا رہتا ہے ، اور کسی روز اس دھاگے کو توڑ کو بہت دور جا گرتا ہے۔ میرے ذہن پر چھائی بے شمار خواہشوں کی سمت کچھ دوستوں کے اخلاص کی خوشبو سے بندھی ہوئی ہے۔ ۔۔۔مجھ جیسے جن کو اپنی زندگی خرچ کرنے لے لئے کوئی نہ کوئی دکان ہمیشہ درکار ہوتی ہے۔۔۔۔اپنی زندگی چھوڑ کر لوگوں کی زندگی گذارنے لگ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر بنیامین ، |
یہ امید میرے اختیار میں ہے، کوشش میں کر رہا ہوں۔۔۔مجھے اس شہر سے صرف بارہ لوگ درکار ہیں جو دو سو کرون فی مہینہ اس سکول کو چلانے کے لئے مدد کر سکیں۔۔۔۔۔اس سکول کے پراجیکٹ کو مزید جاننے کے لئے
سکول کے فیس بک پیج
https://www.facebook.com/pages/Free-School-Project-of-Rays-Foundation-Agri-Hunt/334267290115938
ڈاکٹر بنیامین صاحب سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں