کوپن ہیگن
رمضان رفیق
گذشتہ روز یوم پاکستان کے حوالے سے پاکستان ایمبیسی کوپن ہیگن نے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا ہے، ہر سال کی طرح پرچم کشائی کی تقریب بھی اس پروگرام کا حصہ تھی، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی اس بزم کا حصہ تھے، پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جناح پبلک سکول سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں نے ملی نغمات پیش کئے، ڈنمارک میں پیدا ہونے والے بچوں سے شستہ اردو کے نغمات نے حاظرین کے دلوں کو موہ لیا، نوجوان شاعر محترم سیفی صاحب نے پاکستان کی یادوں سے وابستہ ایک نظم سنا کر لوگوں کو دیس کی گلیوں کی سیر کرائی، ظفر شیخ اور خاور صاحب نے میوزک کی دھنوں پر ایک پنجابی ملی نغمہ گنگنایا تو کئی بزرگوں کے پاوں میں رقص ایسی جنبشوں نے جنم لیا، پھر پاک فوج کو محبت بھرا خراج تحسین پیش کیا گیا، جناب سفیر مسرور احمد جونیجو نے صدر و وزیراعظم کے پیغامات پڑھ کر سنائے، اور لوگوں کے اصرار کو سامنے رکھتے ہوئے پہلی دفعہ ان خطابات کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا گیا، تقریب کے آخر میں بچوں کی پزیرائی کے لئے اسناد بانٹیں گئیں۔ سردی کی اس صبح کو گرمانے کے لئے چائے اور کافی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ غرضیکہ ان تمام لوازمات کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے پاکستانی محفلیں سجتی ہیں، بہت دنوں کے بچھڑے بھی ملے، اور کام میں الجھے ہوئے سچے پاکستانی بھی ایک جگہ اکھٹے ہوئے، اور سب کے چہروں پر پاکستانی کے لئے محبت لکھی ہوئی تھی، اور ہر شخص سراپا دعا لب کناں تھا
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو ۔
رمضان رفیق
گذشتہ روز یوم پاکستان کے حوالے سے پاکستان ایمبیسی کوپن ہیگن نے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا ہے، ہر سال کی طرح پرچم کشائی کی تقریب بھی اس پروگرام کا حصہ تھی، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی اس بزم کا حصہ تھے، پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، جناح پبلک سکول سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں نے ملی نغمات پیش کئے، ڈنمارک میں پیدا ہونے والے بچوں سے شستہ اردو کے نغمات نے حاظرین کے دلوں کو موہ لیا، نوجوان شاعر محترم سیفی صاحب نے پاکستان کی یادوں سے وابستہ ایک نظم سنا کر لوگوں کو دیس کی گلیوں کی سیر کرائی، ظفر شیخ اور خاور صاحب نے میوزک کی دھنوں پر ایک پنجابی ملی نغمہ گنگنایا تو کئی بزرگوں کے پاوں میں رقص ایسی جنبشوں نے جنم لیا، پھر پاک فوج کو محبت بھرا خراج تحسین پیش کیا گیا، جناب سفیر مسرور احمد جونیجو نے صدر و وزیراعظم کے پیغامات پڑھ کر سنائے، اور لوگوں کے اصرار کو سامنے رکھتے ہوئے پہلی دفعہ ان خطابات کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا گیا، تقریب کے آخر میں بچوں کی پزیرائی کے لئے اسناد بانٹیں گئیں۔ سردی کی اس صبح کو گرمانے کے لئے چائے اور کافی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ غرضیکہ ان تمام لوازمات کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے پاکستانی محفلیں سجتی ہیں، بہت دنوں کے بچھڑے بھی ملے، اور کام میں الجھے ہوئے سچے پاکستانی بھی ایک جگہ اکھٹے ہوئے، اور سب کے چہروں پر پاکستانی کے لئے محبت لکھی ہوئی تھی، اور ہر شخص سراپا دعا لب کناں تھا
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں