ہماری ہر دوسری دلیل لاتوں، گھونسوں کا روپ کیوں دھار لیتی ہے، ہماری بحث تشدد کی طرف کیوں چلی جاتی ہے، لوگ لڑنا نہیں چاہتے لیکن پھر بھی کسی کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور بات بڑھ جاتی ہےَ؟ کیا ہمارے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں یا ہمیں لگتا ہے
ہماری موثر ترین دلیل ہمارا گھونسہ ہے؟
پاکستان میں رہتے ہوئے میں نے بھی بارہا زبانی بیانی دلائل کی بجائے ٹھوس دلائل جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ان کا استعمال کیا ۔۔۔مجھے یاد ہے پرائمری سکول میں انیس اے سحرصاحب تختی لکھنے کے لئے قلم بنا کر دیا کرتے تھے ، ہم ایک قطار کا حصہ تھے کسے نے پیچھے سے دھکا دیا اور ہم نے وہ سرکنڈا جس کی ابھی قلم بننا تھی اس لڑکے کے سر میں دے مارا، میری وحشیانہ زندگی پر ایک پورا باب رقم کیا جا سکتا ہے لیکن میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ میں لڑائی جھگڑے میں زیادہ باتوں کا قائل کبھی بھی نہ تھا، لیکن پردیس کے ان پانچ سالوں نے بہت باتیں سننے کا حوصلہ پیدا کر دیا ہے، میں نے تین چار دفعہ گوروں کو لڑتے دیکھا ہے، تو ان کی عمومی لڑائی یہ ہوتی ہے کہ اونچی اونچی آواز میں تیز تیز گفتگو کرتے ہیں، چہرہ ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک دوسرے کو غصے سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔مینوں ہتھ لا کہ تاں دکھا۔۔۔۔۔اور کوئی کسی کو ہاتھ نہیں لگاتا۔۔۔۔اور لڑائی بغیر کسی پر ہاتھ اٹھائے ختم ہو جاتی ہے۔
لیکن ہماری لڑائی میں ہاتھ کا اٹھ جانا انتہائی معمولی بات ہے، بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر پستول نکل آتے ہیں اور بعد میں اپنی جھوٹی انا کی خاطر چلانے بھی پڑ جاتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ یورپی معاشرے میں مار کٹائی کا کلچر اس لئے پروان نہیں چڑھتا کہ ان کی تربیت مار کٹائی کے ذریعے نہیں ہوتی، اوائل سے ہی بچوں کو دلائل سے قائل کیا جاتا ہے، بچوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی ، حتی کہ ماں باپ بھی اس غیر انسانی عیاشی سے محروم ہوتے ہیں۔ اس لئے غصے اور ناراضی کا اظہار صرف باتوں سے کیا جاتا ہے۔ سکولوں، اداروں میں بھی کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ آپ کی تربیت کے بہانے آپ کی ٹکھائی کرے اس لئے بچوں کو اس موثر دلیل کے استعمال کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔۔۔۔
جبکہ ہمارے ہاں
لچے کو سمجھایا پیار سے صفر نتیجہ نکلا
ہم نے یہ آزمایا سوٹا سوٹا ہوتا ہے۔
اور ہمارے ہاں وگڑیاں تگڑیاں دا ڈنڈا پیر قسم کے محاورے ایک اہم مقام رکھتے ہیں اس لئے اس قسم کے آزمودہ جوہر سے ہر کوئی استفادہ کرتا ہے۔ جہاں کوئی سمجھنا نہیں چاہتا وہاں ڈنڈوں اور سوٹوں سے مدد لینا معمولی بات ہے۔
اپنی جاہلیت کے دور میں کسی مخالف کے دلائل کو عزت اور انا کی جنگ میں دشمن کے وار سمجھنا میرا بہت عام سا وطیرہ تھا، کئی ایک مہرباں آشناوں سے بات توں توں میں میں سے گالیوں اور دھکم پیل سے بڑھ کر سر پھٹول تک بھی پہنچی، اب جب سے بالوں میں برف اتری ہے میرا لہجہ ٹھٹھر گیا ہے کے مصداق بہت سے ناگوار باتوں پر بھی دل کو بس یہ کہہ کر سمجھا لیتے ہیں کہ اب جہلا سے کیا بحث کی جائے؟
لیکن تجربے کی وہ کنگھی جو بال اجڑ جانے کے بعد ہاتھ میں آئے چہ معنی؟ عہد جوانی میں جب سبھی جھوم جھام کر چلتے ہیں تب یہ متانت کا ہنر ہاتھ کیوں نہیں آتا اور خصوصا ہمارے معاشرے میں تو لوگ ساری ساری عمر انسانی مزاج کی پہلی سیڑھی جسے کمپیٹیٹر کہا جاتا ہے اس سے آگے ہی نہیں بڑھتے ۔ اس درجہ کی وضاحت کچھ ایسے کی جاسکتی ہے کہ آپ کسی چائے خانے میں کسی دوست سے کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں اتنے میں ایک شخص کسی ساتھ والی میز سے آپ کی دلیل کی مخالفت شروع کردیتا ہے ، کہتا ہے اجی چھوڑیئے آپ کوکیا پتہ ، مجھے سب پتا ہے وغیرہ، ایسے لوگ بدلہ لینے، دل میں کینہ رکھنے وغیرہ کی صلاحتیوں سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ کمال کے اچھے ورکر ہوتے ہیں، آپ ان کی تعریف کر کے جس کام پر لگانا چاہے لگا سکتے ہیں، جب تک ان کی انا کا مساج ہوتا رہے ان سے چوبیس گھنٹے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اکثر کارکن اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کا مطلب کھلا دشمنی کا پیغام ہے۔
اس مقابلہ باز قسم کے انسانوں کی بستی میں کسی کا خون کھول جانا، بڑی عام سی بات ہے، گھور کر دیکھ رہا تھا، کسی گلی سے گذر رہا تھا، کھانس کر گذرا، پیٹھ پھیر لی اور اس کماش کے دیگر دلائل سے کبھی بھی کہیں بھی کسی کا گریبان پکڑا جاسکتا ہے۔ تھوڑے طاقتور ہوں تو مار پیٹ بھی کی جاسکتی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب رویے ہمارے معاشرے میں کیونکر آ گئے، محبت صرف لڑکیوں سے ہی کیوں کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی صرف شادی سے پہلے۔ جب وہی لڑکی بیوی بن جائے تو اس میں سرانڈ پڑ جاتی ہے، اس سے بچے بھی ہو جائیں تو اس کو چٹیا سے پکڑ کر ہلانے جلانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مذہب کی بحثوں میں ایک دوسرے کو کافر بنا کر گردن مار دینے کے فتوے دینا بھی ہمارا ہی محبوب مشغلہ کیوں ہے؟ تھپٹروں کے بغیر ہم بچوں کو کیوں کر سمجھا نہیں پاتے؟ ہمارے سکول میں حکم منوانے کا اوزار ڈنڈا کیوں ہے؟ اور مخالفین کودھونس ، دھمکیوں اور گھونسوں سے متاثر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
یہ بلاگ ڈان نیوز میں پہلے چھپ چکا ہے ، اس کا لنک یہ رہالنک
ہماری موثر ترین دلیل ہمارا گھونسہ ہے؟
پاکستان میں رہتے ہوئے میں نے بھی بارہا زبانی بیانی دلائل کی بجائے ٹھوس دلائل جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ان کا استعمال کیا ۔۔۔مجھے یاد ہے پرائمری سکول میں انیس اے سحرصاحب تختی لکھنے کے لئے قلم بنا کر دیا کرتے تھے ، ہم ایک قطار کا حصہ تھے کسے نے پیچھے سے دھکا دیا اور ہم نے وہ سرکنڈا جس کی ابھی قلم بننا تھی اس لڑکے کے سر میں دے مارا، میری وحشیانہ زندگی پر ایک پورا باب رقم کیا جا سکتا ہے لیکن میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ میں لڑائی جھگڑے میں زیادہ باتوں کا قائل کبھی بھی نہ تھا، لیکن پردیس کے ان پانچ سالوں نے بہت باتیں سننے کا حوصلہ پیدا کر دیا ہے، میں نے تین چار دفعہ گوروں کو لڑتے دیکھا ہے، تو ان کی عمومی لڑائی یہ ہوتی ہے کہ اونچی اونچی آواز میں تیز تیز گفتگو کرتے ہیں، چہرہ ایک دوسرے کے قریب لا کر ایک دوسرے کو غصے سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔مینوں ہتھ لا کہ تاں دکھا۔۔۔۔۔اور کوئی کسی کو ہاتھ نہیں لگاتا۔۔۔۔اور لڑائی بغیر کسی پر ہاتھ اٹھائے ختم ہو جاتی ہے۔
لیکن ہماری لڑائی میں ہاتھ کا اٹھ جانا انتہائی معمولی بات ہے، بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر پستول نکل آتے ہیں اور بعد میں اپنی جھوٹی انا کی خاطر چلانے بھی پڑ جاتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ یورپی معاشرے میں مار کٹائی کا کلچر اس لئے پروان نہیں چڑھتا کہ ان کی تربیت مار کٹائی کے ذریعے نہیں ہوتی، اوائل سے ہی بچوں کو دلائل سے قائل کیا جاتا ہے، بچوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی ، حتی کہ ماں باپ بھی اس غیر انسانی عیاشی سے محروم ہوتے ہیں۔ اس لئے غصے اور ناراضی کا اظہار صرف باتوں سے کیا جاتا ہے۔ سکولوں، اداروں میں بھی کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ آپ کی تربیت کے بہانے آپ کی ٹکھائی کرے اس لئے بچوں کو اس موثر دلیل کے استعمال کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔۔۔۔
جبکہ ہمارے ہاں
لچے کو سمجھایا پیار سے صفر نتیجہ نکلا
ہم نے یہ آزمایا سوٹا سوٹا ہوتا ہے۔
اور ہمارے ہاں وگڑیاں تگڑیاں دا ڈنڈا پیر قسم کے محاورے ایک اہم مقام رکھتے ہیں اس لئے اس قسم کے آزمودہ جوہر سے ہر کوئی استفادہ کرتا ہے۔ جہاں کوئی سمجھنا نہیں چاہتا وہاں ڈنڈوں اور سوٹوں سے مدد لینا معمولی بات ہے۔
اپنی جاہلیت کے دور میں کسی مخالف کے دلائل کو عزت اور انا کی جنگ میں دشمن کے وار سمجھنا میرا بہت عام سا وطیرہ تھا، کئی ایک مہرباں آشناوں سے بات توں توں میں میں سے گالیوں اور دھکم پیل سے بڑھ کر سر پھٹول تک بھی پہنچی، اب جب سے بالوں میں برف اتری ہے میرا لہجہ ٹھٹھر گیا ہے کے مصداق بہت سے ناگوار باتوں پر بھی دل کو بس یہ کہہ کر سمجھا لیتے ہیں کہ اب جہلا سے کیا بحث کی جائے؟
لیکن تجربے کی وہ کنگھی جو بال اجڑ جانے کے بعد ہاتھ میں آئے چہ معنی؟ عہد جوانی میں جب سبھی جھوم جھام کر چلتے ہیں تب یہ متانت کا ہنر ہاتھ کیوں نہیں آتا اور خصوصا ہمارے معاشرے میں تو لوگ ساری ساری عمر انسانی مزاج کی پہلی سیڑھی جسے کمپیٹیٹر کہا جاتا ہے اس سے آگے ہی نہیں بڑھتے ۔ اس درجہ کی وضاحت کچھ ایسے کی جاسکتی ہے کہ آپ کسی چائے خانے میں کسی دوست سے کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں اتنے میں ایک شخص کسی ساتھ والی میز سے آپ کی دلیل کی مخالفت شروع کردیتا ہے ، کہتا ہے اجی چھوڑیئے آپ کوکیا پتہ ، مجھے سب پتا ہے وغیرہ، ایسے لوگ بدلہ لینے، دل میں کینہ رکھنے وغیرہ کی صلاحتیوں سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ کمال کے اچھے ورکر ہوتے ہیں، آپ ان کی تعریف کر کے جس کام پر لگانا چاہے لگا سکتے ہیں، جب تک ان کی انا کا مساج ہوتا رہے ان سے چوبیس گھنٹے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اکثر کارکن اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کا مطلب کھلا دشمنی کا پیغام ہے۔
اس مقابلہ باز قسم کے انسانوں کی بستی میں کسی کا خون کھول جانا، بڑی عام سی بات ہے، گھور کر دیکھ رہا تھا، کسی گلی سے گذر رہا تھا، کھانس کر گذرا، پیٹھ پھیر لی اور اس کماش کے دیگر دلائل سے کبھی بھی کہیں بھی کسی کا گریبان پکڑا جاسکتا ہے۔ تھوڑے طاقتور ہوں تو مار پیٹ بھی کی جاسکتی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب رویے ہمارے معاشرے میں کیونکر آ گئے، محبت صرف لڑکیوں سے ہی کیوں کرنا چاہتے ہیں اور وہ بھی صرف شادی سے پہلے۔ جب وہی لڑکی بیوی بن جائے تو اس میں سرانڈ پڑ جاتی ہے، اس سے بچے بھی ہو جائیں تو اس کو چٹیا سے پکڑ کر ہلانے جلانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مذہب کی بحثوں میں ایک دوسرے کو کافر بنا کر گردن مار دینے کے فتوے دینا بھی ہمارا ہی محبوب مشغلہ کیوں ہے؟ تھپٹروں کے بغیر ہم بچوں کو کیوں کر سمجھا نہیں پاتے؟ ہمارے سکول میں حکم منوانے کا اوزار ڈنڈا کیوں ہے؟ اور مخالفین کودھونس ، دھمکیوں اور گھونسوں سے متاثر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
یہ بلاگ ڈان نیوز میں پہلے چھپ چکا ہے ، اس کا لنک یہ رہالنک
کہتے ہیں کہ یورپ نے جب بہت خون بہا لیا تو پھر اسے سمجھ آئی کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ہم ابھی اس عملی تجربے سے گزر رہے ہیں اور ہمیں بھی اس بات کی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے۔ یعنی اب ہم بھی اپنی تشدد جیسی غلطی کو تسلیم کر رہے ہیں اور اس کے حل کے لئے سوچنا شروع گئے ہیں۔ باقی ظاہر ہے کہ تبدیلی بتدریج آتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںاپنے آخری سوالوں کا جواب پہلے جو آپ نے خود دیا، فی الحال میرا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے کہ ”یورپی معاشرے میں مار کٹائی کا کلچر اس لئے پروان نہیں چڑھتا کہ ان کی تربیت مار کٹائی کے ذریعے نہیں ہوتی، اوائل سے ہی بچوں کو دلائل سے قائل کیا جاتا ہے“۔