چڑی روزہ ۔۔۔عیدی ۔۔۔۔وغیرہ

روزے دارو
اللہ تے نبی دے پیارو
سحری دا وقت ختم ہون چہ ایک گھنٹہ رہ گیا
جلدی جلدی اٹھ کے روزہ رکھ لو 

وقفے وقفے سے ان اعلانات کی گونج کے پس منظر میں سے ماں جی کی واضح آواز سنائی دیتی۔۔۔۔ہن اٹھ وی جاو ۔۔۔۔۔لکڑیوں
والے چولہے پر پھونکنی سے پھونکیں مارتی ماں جی۔۔۔۔جلدی جلدی پراٹھے پکاتیں جاتیں اور باری باری ہم سب کو آوازیں لگاتی جاتیں۔۔۔ایسے میں ماں جی کی آواز پر سب سے پہلے ابو جی ان کی مدد کو جاگتے اور ہم ادھ کھلی آنکھوں سے آخری پراٹھا پکنے کا انتظار کرتے۔۔۔جب سب چیزیں دستر خوان پر آ موجود ہوتیں تو ابو جی کی گونجدار آواز سنائی دیتی ہن اٹھ وی جاو۔۔۔بس پھر نیند فورا ہی کہیں بھاگ جاتی اور ہم یوں اچانک بستر سے نکل کر منہ ہاتھ دھونے نکل کھڑے ہوتے جیسے ہم جیسا مستعد اور فرماں بردار کبھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔۔۔۔دادا جی کے لئے دیسی گھی کی چوری، سب کے لئے پراٹھے اور کوئی سا بھی سالن۔۔۔۔اور آخر میں ابو جی کے ہاتھ کی چائے۔۔۔۔چائے دیتے ہوئے کہتے۔۔۔۔لو جی گلے دی ٹکور کر لو۔۔۔۔۔۔۔افطاریوں کی سب باتیں بھول سکتیں ہیں مگر وہ روح افزا کا بڑا کمنڈل جس میں برف تیر رہی ہوتی تھی اب تک نہیں بھولتا۔۔۔۔پاکستان کی گرمیوں کے روزے اور ٹھنڈا ٹھار لال رنگ کا شربت جو ٹھنڈ کلیجے ڈالتا تھااس کیفیت کے بھی کیا کہنے۔۔۔۔
وہ ابتدائی روزے جب پورا روزہ رکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔۔۔ماں جی کہتی تھیں چڑی روزہ رکھ لو۔۔۔سحری کے ثواب کے 
اتنے فضائل بیان ہوتے تھے کہ بنا روزہ رکھے بھی ثواب کے لئے اٹھنا ہی پڑتا تھا۔۔۔۔مجھے بہت زیادہ چڑی روزے یاد نہیں کیونکہ بہت شروع سے ہی میں نے روزے رکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔۔۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی میرا نام اسی مہینے سے منسوب ہے اور میرا نام میرے دادا جی نے رکھا تھا۔۔۔نام رکھے جانے کی وجہ روزوں میں پیدا ہونا تھا۔۔۔۔اس زمانے میں صائم جیسے نئے نام دریافت نہیں ہوئے تھے اور اکثر لڑکوں کا نام رمضان رکھ دیا جاتا تھا۔۔۔حتی کہ میں نے ایک آدھ خاتون کانام رمضانہ بھی سن رکھا ہے۔۔۔دادا جی بڑے فخر سے کہتے تھے ۔۔۔میرا رمضان آ گیا۔۔۔ایہدا ناں میں رکھیا۔۔۔۔۔تو اس نام کی وجہ سے میں روزوں کی حرمت کے حوالے سے ایک خاص قسم کی ذمہ داری سی محسوس کرتا آیا ہوں۔۔۔اور اس مہینہ کو ہمیشہ اپنی سالگرہ کا مہینہ سمجھ کر اچھے طریق سے منانے کی کوشش کرتا آیا ہوں۔۔۔کچھ ایسے فقروں کی باز گشت بھی ذہن میں ہے جن میں ، میں کہا کرتا تھا کہ رمضان ہی رمضان کے روزے نہ رکھے گا تو کون رکھے گا۔۔۔۔تو شاید آپ اتنی تفصیل کے بعد یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے کبھی اس ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کی اور دل و جان سے روزے رکھتا آیا ہوں۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں کہ ہمارے گھر میں اس شد ومد سے روزے رکھنے کا اہتمام کیوں کیا جاتا تھا ۔۔۔مجھے یاد نہیں کہ ہم بہن بھائیوں میں سے کسی نے کبھی روزہ چھوڑا تھا۔۔۔ایک مقابلہ سا ہوا کرتا تھا۔۔۔نانا جی زیادہ روزے رکھنے والوں کی عیدی میں بھی اضافہ کیا کرتے تھے۔۔۔
عیدی سے مجھے یاد آیا کہ ہمیں عیدی کچھ قابل ذکر نہ ملا کرتی تھی۔۔۔جو رشتہ دار تھے وہ ماں جی کو اکھٹی عید دے جایا کرتے تھے اور ماں جی اس عید کو دیگر ضروریات کے کھاتے میں ڈال برابر کر دیا کرتی تھیں۔۔۔ابو جی ، امی جی سے کچھ عید بٹورا کرتے تھے۔۔۔کوشش کرکے بڑے بھائیوں سے کچھ نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔۔۔۔جو کہ اب تک کرتے ہیں۔۔۔۔لیکن پھر بھی کچھ خاطر خواہ اکٹھا نہ ہوتا تھا۔۔۔۔قریبی رشتہ داروں ماموں، چچاوں نے کبھی اتنا قربت کا موقع ہی نہیں دیا کہ ضد کر کے کچھ روپیے نکلوا لیتے۔۔۔۔
ہمارے دور میں روزہ کشائی وغیرہ کا بھی ناٹک نہ ہوتا تھا۔۔۔میں نے یہ لفظ سنا ہی چند برس پہلے ہے وہ بھی شاید میڈیا کے توسط سے۔۔۔۔اس لئے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پہلا روزہ کب رکھا تھا۔۔۔۔لیکن یہ پکی بات ہے رمضان کا ہی مہینہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سطور ہمارے بلاگر دوست  محترم شعیب صفدر گھمن صاحب کی محبت کے نام۔۔۔۔۔۔
وہ دوست جن کو میں ٹیگ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اس موضوع پر لب کشائی کریں۔ 
 محمد سلیم صاحب
 محمد اسلم فہیم 
ڈاکٹر شوکت علی 
علی حسن 

محمد اسد اسلم  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں