سعادت حسن منٹو سے کسی نے پوچھا کہ تم کتنے مسلمان ہو ، اس نے کہا بس اتنا سا کہ مسلمانوں اور ہندووں کا میچ ہو تو دل
چاہتا ہے کہ مسلمان جیت جائیں۔ ۔۔۔میں بھی ایسا ہی پاکستانی اور مسلمان ہوں۔۔۔ہر مقابلے میں دل کسی معجزے کا متمنی رہتا ہے۔ جب ایک بال پر بارہ سکور درکار ہو تب بھی دل کہتا ہے۔۔۔مولا کریم تیرے خزانے میں کیا کمی ہے آخر۔۔۔ایک نو بال پہ چھکا اور اگلی بال پہ پھر چھکا۔۔۔۔دل آخری لمحے تک پاکستانی ٹیم کے جیتنے کی دعائیں مانگتا رہتا ہے ۔۔۔مجھے کسی بھی کھیل کے دیکھنے کا کوئی خاص شوق نہیں۔۔۔کرکٹ سکول میں کھیلی اور اپنی باری کی حد تک کھیلی اور بالآخر یہ برانڈ ایسا اسٹیبلش کیا کہ دوست احباب بنا فیلڈنگ کے میچ کے آخر میں ایک اعزازی باری دیا کرتے تھے۔۔۔لوگ جس عمر میں کرکٹ آغاز کرتے ہیں ہم نے اسی عمر میں کوچنگ شروع کردی تھی اس لئے بھی کرکٹ کے کھیل میں کھلاڑیوں والی دل چسپی پیدا ہی نہیں ہو سکی۔ فٹ بال بھی کھیلی۔۔۔جب جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے سکاوٹ ہوا کرتے تھے تو ہر صبح نماز فجر کے بعد فٹ بال کھیلنے جایا کرتے تھے۔۔۔اس میں بھی ہماری فل بیک پوزیشن بالکل پکی ہوا کرتی تھی جس میں جب کبھی بال پیچھے گول کی طرف آتی میں اس کو بنا کسی کو تاکے بس ہٹ کیا کرتا۔۔۔۔میری کوشش ہوتی تھی کہ جہاں تک ہو سکے یہ کھیل مخالف ٹیم کے علاقے میں ہی کھیلا جاتا رہے۔
بچپن میں شیشم کے درخت کی ہاکی نما لکڑی سے ہاکی بھی ہم نے خوب کھیل رکھی ہے۔ ہمارے ہاکی کلب کا نام ٹمبا ہاکی کلب تھا۔ اچھی اچھی ہاکیوں والے تو ویسے ہی ہم سے میچ نہیں کھیلتے تھے کہ ٹمبے والے ہاکی توڑ دیتے ہیں۔۔۔۔۔آپ کو زیادہ لمبی گپ محسوس نہ ہو تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پانچویں جماعت کے سکول کے ٹورنامنٹ میں کبڈی کی ٹیم کا بھی کھلاڑی رہا ہوں۔ ۔۔۔ایف ایس سی کے دور میں اپنے دوست مرزا ذیشان کے کلب ٹی۔بی۔ایم ۔۔۔۔جو دی بگ مغلز۔۔۔کا اختصار تھا ۔۔۔میں بیڈ منٹن بھی ہم نے خوب کھیلی۔۔۔گورنمنٹ کالج ملتان کے ہاسٹلز میں ٹیبل ٹینس پر ہاتھ سیدھا کیا۔۔۔ان سب تفصیلات کا مقصد صرف یہ بتانا مقصود ہے کھیلوں میں ہم حصہ لیتے ہی آئے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اچھے کھیلنے والے نہیں رہے۔ ۔۔۔اب جب بھی پاکستان کی کسی بھی قومی ٹیم پر کوئی مشکل مرحلہ آتا ہے۔۔۔ہمارے اندر بچپن اور نوجوانی کا ملٹی ٹیلنٹڈ کھلاڑی انگڑائی سی لیتا ہے۔ ۔۔میں جی بھر کے متعلقہ ٹیم کو کوسنے دیتا ہوں اور دل میں کہتا ہوں۔۔۔چلے تھے میرے ملک کی نمائندگی کرنے۔۔۔۔اس سے بہتر تھا ہم خود ہی لنگوٹ کس کر میدان میں آ گئے ہوتے۔۔۔
ابھی ہاکی کے کپتان کا دلخراش بیان پڑھا۔۔۔کہ نان چھولے کھا کے اور شربت پی کر بین الاقوامی مقابلہ جات کی تیاری نہیں ہوتی۔۔۔۔ایک قوم کے منہ پر اس سے بڑا فٹے منہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ قومی کھیل کے میدان میں جیتنا تو درکنار کوالیفائی بھی نہ کرسکے۔
سنا ہے کہ وزیراعظم جی نے نوٹس بھی لے لیا ہے۔۔۔نوٹس لینے کا اصلی مفہوم آپ کسی بھی سرکاری محمکے میں کام کرنے والے سے پوچھ سکتے ہیں۔ جہاں جواب طلبی نام کے نوٹس ہر دوسرے دن وصول ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے دفتر کے ہیڈ کلرک کا ہمارے بارے یہ کہنا تھا کہ دو سالوں میں کسی آفیسر کی ذاتی فائل میں اتنے نوٹس لگتے انہوں نے نہیں دیکھے۔۔۔۔ان نوٹس سے کچھ بھی ٹس سے مس نہ ہوگا۔۔۔۔
دنیا بھر کی طرح لوگوں کو آگے بڑھ کے کھیلوں کے میدان کو اپنانا ہو گا۔۔۔۔دنیا بھر میں لوگ اپنی اپنی ٹیم اور ان میں موجود کھلاڑیوں کو فالو کرتے ہیں۔ جب کبھی میچ ہوتا ہے اپنی ٹیم کے جھنڈے سے بنی شرٹ بڑے فخر سے زیب تن کرتے ہیں، اپنی گاڑیوں پر اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے سٹکر چپکاتے ہیں۔ اپنی ٹیم کی بہتری کے لئے اس کو چندہ دیتے ہیں۔ جب ٹیم بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر دل کھول کر بھڑاس بھی نکالتے ہیں۔۔۔۔ہمارے ہاں کھلاڑیوں اور کھیل کو اپنانے کا رواج تک موجود نہیں۔۔۔سکولوں میں ہونے والی کھیلیں کافی حد تک ختم ہو گئیں۔۔۔عجیب و غریب قسم کے کالج کھل گئے جن میں کھیلنے کو ایک گراونڈ تک موجود نہیں۔۔اپنے شوق سے کوئی کسی کھیل کو اپنا لے تو اپنا لے۔۔۔ابھی پچھلے دنوں چندہ مانگ کر امریکہ میں جانے والے پاکستانی باڈی بلڈر کی کہانی کس نے نہیں پڑھی۔۔۔۔پاکستان کے لئے اعزاز جیتنے والوں سے حکومتیں کیا کیا نہیں کرتی آئیں۔۔۔کوئی اولمپئین رکشہ چلائے، یا سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کو پنکچر۔۔۔۔احباب اقتدار نے کبھی کوئی سسٹم بنانے کا سوچا ہی نہیں جس میں ملک کے لئے عزت کمانے والوں کی آنے والی زندگی کو بے مثل بنا دیا گیا ہو۔۔۔۔لوگوں کو آگے آنا ہو گا۔۔۔ہم خیال لوگوں کو اکٹھا ہو کر پاکستان کے لئے کھیلے جانے والے ہر کھیل کے لئے لوگوں کو پرائیویٹ طرز کے کلب بنانے ہوں گے ۔ جو لوگ خود سے فنڈ اکٹھا کر سکیں۔ اچھے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں اور اپنے اپنے علاقوں کے بہترین ٹیلنٹ کو ڈھونڈھ کر سامنے لا سکیں۔ ورنہ بد انتظام حکومتوں کی ادلا بدلی میں کھیلوں کا حال وہی ہو گا جو آج ہماری قومی کھیل کا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو پاکستان کی انڈسری کے کچھ ادارے کچھ کھیلوں کی ذمہ داری اٹھا لیں۔ کھلاڑیوں کو اچھی سہولیات فراہم ہوں۔ فٹنس کا سامان اور ان کی ورزش کے مطابق خوراک کا بندوبست کریں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہماری کسی بھی صنعت سے زیادہ عزت یہ لوگ ہمارے لئے کما سکتے ہیں۔
چاہتا ہے کہ مسلمان جیت جائیں۔ ۔۔۔میں بھی ایسا ہی پاکستانی اور مسلمان ہوں۔۔۔ہر مقابلے میں دل کسی معجزے کا متمنی رہتا ہے۔ جب ایک بال پر بارہ سکور درکار ہو تب بھی دل کہتا ہے۔۔۔مولا کریم تیرے خزانے میں کیا کمی ہے آخر۔۔۔ایک نو بال پہ چھکا اور اگلی بال پہ پھر چھکا۔۔۔۔دل آخری لمحے تک پاکستانی ٹیم کے جیتنے کی دعائیں مانگتا رہتا ہے ۔۔۔مجھے کسی بھی کھیل کے دیکھنے کا کوئی خاص شوق نہیں۔۔۔کرکٹ سکول میں کھیلی اور اپنی باری کی حد تک کھیلی اور بالآخر یہ برانڈ ایسا اسٹیبلش کیا کہ دوست احباب بنا فیلڈنگ کے میچ کے آخر میں ایک اعزازی باری دیا کرتے تھے۔۔۔لوگ جس عمر میں کرکٹ آغاز کرتے ہیں ہم نے اسی عمر میں کوچنگ شروع کردی تھی اس لئے بھی کرکٹ کے کھیل میں کھلاڑیوں والی دل چسپی پیدا ہی نہیں ہو سکی۔ فٹ بال بھی کھیلی۔۔۔جب جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے سکاوٹ ہوا کرتے تھے تو ہر صبح نماز فجر کے بعد فٹ بال کھیلنے جایا کرتے تھے۔۔۔اس میں بھی ہماری فل بیک پوزیشن بالکل پکی ہوا کرتی تھی جس میں جب کبھی بال پیچھے گول کی طرف آتی میں اس کو بنا کسی کو تاکے بس ہٹ کیا کرتا۔۔۔۔میری کوشش ہوتی تھی کہ جہاں تک ہو سکے یہ کھیل مخالف ٹیم کے علاقے میں ہی کھیلا جاتا رہے۔
بچپن میں شیشم کے درخت کی ہاکی نما لکڑی سے ہاکی بھی ہم نے خوب کھیل رکھی ہے۔ ہمارے ہاکی کلب کا نام ٹمبا ہاکی کلب تھا۔ اچھی اچھی ہاکیوں والے تو ویسے ہی ہم سے میچ نہیں کھیلتے تھے کہ ٹمبے والے ہاکی توڑ دیتے ہیں۔۔۔۔۔آپ کو زیادہ لمبی گپ محسوس نہ ہو تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پانچویں جماعت کے سکول کے ٹورنامنٹ میں کبڈی کی ٹیم کا بھی کھلاڑی رہا ہوں۔ ۔۔۔ایف ایس سی کے دور میں اپنے دوست مرزا ذیشان کے کلب ٹی۔بی۔ایم ۔۔۔۔جو دی بگ مغلز۔۔۔کا اختصار تھا ۔۔۔میں بیڈ منٹن بھی ہم نے خوب کھیلی۔۔۔گورنمنٹ کالج ملتان کے ہاسٹلز میں ٹیبل ٹینس پر ہاتھ سیدھا کیا۔۔۔ان سب تفصیلات کا مقصد صرف یہ بتانا مقصود ہے کھیلوں میں ہم حصہ لیتے ہی آئے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اچھے کھیلنے والے نہیں رہے۔ ۔۔۔اب جب بھی پاکستان کی کسی بھی قومی ٹیم پر کوئی مشکل مرحلہ آتا ہے۔۔۔ہمارے اندر بچپن اور نوجوانی کا ملٹی ٹیلنٹڈ کھلاڑی انگڑائی سی لیتا ہے۔ ۔۔میں جی بھر کے متعلقہ ٹیم کو کوسنے دیتا ہوں اور دل میں کہتا ہوں۔۔۔چلے تھے میرے ملک کی نمائندگی کرنے۔۔۔۔اس سے بہتر تھا ہم خود ہی لنگوٹ کس کر میدان میں آ گئے ہوتے۔۔۔
ابھی ہاکی کے کپتان کا دلخراش بیان پڑھا۔۔۔کہ نان چھولے کھا کے اور شربت پی کر بین الاقوامی مقابلہ جات کی تیاری نہیں ہوتی۔۔۔۔ایک قوم کے منہ پر اس سے بڑا فٹے منہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ قومی کھیل کے میدان میں جیتنا تو درکنار کوالیفائی بھی نہ کرسکے۔
سنا ہے کہ وزیراعظم جی نے نوٹس بھی لے لیا ہے۔۔۔نوٹس لینے کا اصلی مفہوم آپ کسی بھی سرکاری محمکے میں کام کرنے والے سے پوچھ سکتے ہیں۔ جہاں جواب طلبی نام کے نوٹس ہر دوسرے دن وصول ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے دفتر کے ہیڈ کلرک کا ہمارے بارے یہ کہنا تھا کہ دو سالوں میں کسی آفیسر کی ذاتی فائل میں اتنے نوٹس لگتے انہوں نے نہیں دیکھے۔۔۔۔ان نوٹس سے کچھ بھی ٹس سے مس نہ ہوگا۔۔۔۔
دنیا بھر کی طرح لوگوں کو آگے بڑھ کے کھیلوں کے میدان کو اپنانا ہو گا۔۔۔۔دنیا بھر میں لوگ اپنی اپنی ٹیم اور ان میں موجود کھلاڑیوں کو فالو کرتے ہیں۔ جب کبھی میچ ہوتا ہے اپنی ٹیم کے جھنڈے سے بنی شرٹ بڑے فخر سے زیب تن کرتے ہیں، اپنی گاڑیوں پر اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے سٹکر چپکاتے ہیں۔ اپنی ٹیم کی بہتری کے لئے اس کو چندہ دیتے ہیں۔ جب ٹیم بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر دل کھول کر بھڑاس بھی نکالتے ہیں۔۔۔۔ہمارے ہاں کھلاڑیوں اور کھیل کو اپنانے کا رواج تک موجود نہیں۔۔۔سکولوں میں ہونے والی کھیلیں کافی حد تک ختم ہو گئیں۔۔۔عجیب و غریب قسم کے کالج کھل گئے جن میں کھیلنے کو ایک گراونڈ تک موجود نہیں۔۔اپنے شوق سے کوئی کسی کھیل کو اپنا لے تو اپنا لے۔۔۔ابھی پچھلے دنوں چندہ مانگ کر امریکہ میں جانے والے پاکستانی باڈی بلڈر کی کہانی کس نے نہیں پڑھی۔۔۔۔پاکستان کے لئے اعزاز جیتنے والوں سے حکومتیں کیا کیا نہیں کرتی آئیں۔۔۔کوئی اولمپئین رکشہ چلائے، یا سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کو پنکچر۔۔۔۔احباب اقتدار نے کبھی کوئی سسٹم بنانے کا سوچا ہی نہیں جس میں ملک کے لئے عزت کمانے والوں کی آنے والی زندگی کو بے مثل بنا دیا گیا ہو۔۔۔۔لوگوں کو آگے آنا ہو گا۔۔۔ہم خیال لوگوں کو اکٹھا ہو کر پاکستان کے لئے کھیلے جانے والے ہر کھیل کے لئے لوگوں کو پرائیویٹ طرز کے کلب بنانے ہوں گے ۔ جو لوگ خود سے فنڈ اکٹھا کر سکیں۔ اچھے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں اور اپنے اپنے علاقوں کے بہترین ٹیلنٹ کو ڈھونڈھ کر سامنے لا سکیں۔ ورنہ بد انتظام حکومتوں کی ادلا بدلی میں کھیلوں کا حال وہی ہو گا جو آج ہماری قومی کھیل کا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو پاکستان کی انڈسری کے کچھ ادارے کچھ کھیلوں کی ذمہ داری اٹھا لیں۔ کھلاڑیوں کو اچھی سہولیات فراہم ہوں۔ فٹنس کا سامان اور ان کی ورزش کے مطابق خوراک کا بندوبست کریں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہماری کسی بھی صنعت سے زیادہ عزت یہ لوگ ہمارے لئے کما سکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں