دنیا کی مہنگی ترین پینٹگز خریدنے والے تاجر سے پوچھنے والے نے پوچھا کہ آپ اس تصویر کی اتنی بھاری قیمت کیونکر
دیتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اس فن کی قدر دانی کے لئے قیمت کوئی پیمانہ نہیں۔۔۔۔بس یہ اس بات کا اظہار ہے میں اس فن پارہ کو کس قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔۔۔۔کروڑوں روپوں قیمت پانے والے فن پاروں کی تصاویر میں نے بارہا دیکھی ہیں ۔۔۔لیکن سچ پوچھئے تو میں ان کی قدر وقیمت سے نا آشنا ہوں۔۔۔۔نیلے پھولوں والی فراک پہنے ایک حسینہ دھوپ نکلے موسم میں پھولوں بھرے ایک کھیت کنارے کھڑی ہے۔۔۔اور تصویر کی قیمت ہے دو کروڑ روپے۔۔۔۔میری سوچ کبھی اس قیمت تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔۔۔۔کیونکہ میں نے کبھی ضروریات کے جنگل سے پرے دیکھا ہی نہیں۔ میرے پاس اگر کروڑ روپیہ ہو تو پہلے اپنی ضروریات کو ترتیب دوں۔۔۔اپنے گردو پیش پر نظر کروں۔۔۔۔۔اور یہ سب منظر بدل جائیں تو فنون لطیفہ کی قدر شناسی کی طرف توجہ کروں۔۔۔۔
چلئے چھوٹے موٹے ادیبوں کو تو چھوڑیے۔۔۔غالب ایسے خدائے سخن بھی قرض خواری کے بغیر گھر داری نہ چلا پائے۔۔۔ہمارے خطے کے عظیم مگر خوشحال فنکاروں کی فہرست ترتیب دینے کی کوشش کریں۔۔۔بمشکل کوئی ایک آدھ نام سجھائی دے گا۔۔۔اور وہ بھی وہ جس کے آباو اجداد کچھ ترکہ چھوڑ گئے۔۔۔وگرنہ فنوں لطیفہ کے بل بوتے پر گھر کا چولہا جلانے کتنے ہوں گے؟
ابھی کچھ برقی میڈیا کے آنے سے لکھنے والوں کے حالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی ایسی کہاں کہ کہیں فنکاروں یا قلمکاروں کے حالات بدل گئے۔ وہ کون سا مصور ہے جس کے فن کے رنگوں نے اس کی اپنی زندگی میں رنگ بھرا؟
وہ کون سا لکھنے والا ہے جس نے اپنی تقدیر لکھی؟ لوگوں کے قصیدے لکھنے والے اپنی زندگی کے مرثیے لکھنے پر مجبور کیونکر ہیں۔۔۔۔کوئی وقت آئے گا یہ انمول بھی نان شبینہ کے برابر مول پا سکیں گے؟؟؟؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں