اقتدار کا بھوکا عمران خان ؟


کیا یہ عہد خلافت میں امارت کے حصول پر مجلس شوری کی تقریب کا احوال ہے، جہاں دنیا کی طمع سے بے نیاز اصحاب با صفا سر جھکائے بیٹھے ہیں ، مسئلہ در پیش ہے کہ نیا خلیفہ کون ہو گا، کس کے کندھوں پر امارت اور خلافت کا بوجھ لاد دیا جائے گا، اور کون ہو گا جو اس سے انصاف کر پائے گا؟۔ اس لئے ہر کوئی ہچکچا رہا ہے۔ ۔۔۔ہر شخص اقتدار اور اختیار سے کنارہ کش رہنا ہی پسند کرتا ہے اور ایسے میں لوگوں کی نگاہ انتخاب کسی مرد قلندر پر پڑتی ہے۔ وہ مرد قلندر جو آج کے اس اجلاس میں بھی شریک نہیں اور باہر کسی بیاباں میں بکریوں کی گلہ بانی میں مصروف ہے۔ ایک آواز بلند ہوتی ہے۔ میرے خیال میں فلاں ابن فلاں کو بلا لیجئے ان سے موزوں شخص اس عہد میں کوئی ہو نہیں سکتا۔ اسی خیال کی تقلید میں کچھ اور آوازیں بلند ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مجلس شوری کسی گلہ بان کو امارت کے لئے چن لیتی ہے۔ اور وہ مرد درویش پھر بھی انکاری ہے کہ وہ اس بھاری بوجھ سے عہدہ برا ہونے کی استطاعت نہیں رکھتا۔۔۔اور بالآخر لوگوں کی آرا  کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔۔۔۔اور یوں مسلمانوں کا کوئی امیر چن لیا جاتا ہے۔

جب کبھی  پاکستان کے جغادری صحافی عمران خان کو اقتدار کے حصول کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ تو کسی خلافت و امارت کے انتخاب کے پرانے اجتہاد کہ مانگنے والے کو اختیار و امارت نہ دی جائے۔۔۔کہ برابر کے پلڑے میں رکھ دیتے ہیں اور فورا فرماتے ہیں چھوڑئے صاحب یہ تو اقتدار کا بھوکا ہے؟ سچ پوچھئے تو یہ ایسی ظالم دلیل ہے جس کے سامنے ہمارے مذہب پرست ذہن پر مارنے کی جا بھی نہیں رکھتے۔ کیا دیوانہ وار پچھلے دو عشروں سے پاکستان کے طول و عرض میں تلاطم برپا کر دینے والا عمران خان اختیار و امارت کا بھوکا ہے؟ وہ جو خود کو وزیراعظم کی کرسی پر دیکھنا چاہتا ہے۔ ۔۔۔اور اس کے اسی لالچ کیوجہ سے امیر وقت کو کتنی پریشانی کا سامنا ہے۔ ان کے بچوں، بہووں بیٹیوں تک کے خواب بادشاہی میں خلل پڑتا ہے۔
یہ طعنہ اور بھی شدت اختیار کر جاتا ہے جب دینے والا بھی ایسا ہو جس نے بیس پچیس سال حکومت کا مزہ چکھ رکھا ہو۔ وہ بڑے طمطراق سے کہے۔۔۔تمہارے لہجے میں کڑواہٹ کیوں ہے، تم اختیار کے لالچی شخص، تم اقتدار کے بھوکے وغیرہ۔ اور ابھی جو تازہ ہوا چلی ہے کہ عمران خان ناکامی کا دوسرا نام بنتا جا رہا ہے۔۔۔۔
جیسے دھرنا ناکام
الیکشن میں دھاندلی ثابت کرنے میں ناکام
چوہدری افتخار کے خلاف دلائل دینے میں ناکام
ایک سو بائیس کے الیکشن میں ناکام
خیبر پختون خواہ کو ماڈل صوبہ بنانے میں ناکام

یہ اقتدار کا بھوکا شخص جو ناکام بھی ہے کیا اس ملک کا آنے والا حکمران ہو سکتا ہے؟ جو اپنے اقتدار کی بھوک کی خاطر ریڈیو پاکستان پر حملہ کرواتا ہے، جو اس خوبصورت جمہوریت کے مقابل کسی ایمپائر کی انگلی کے اشارے کا منتظر ہے، جو جلسوں کے انتظامات اس لئے اچھے نہیں کرواتا کہ لوگ بھیٹر میں مر جائیں۔۔۔ایسا اقتدار کا بھوکا شخص کیا تمہارا حکمران ہونا چاہیئے۔ بولو میری بکریو۔۔۔۔۔۔

ویسے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ نظام سیاست میں کون ہے جو اقتدار کا بھوکا نہیں۔ اگر اس ترکیب کو تھوڑا شائستہ کر لیا جائے کہ کون ہے جو اقتدار نہیں چاہتا؟ کیا سیاسی پارٹیوں کا وجود ہی اس حصول کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ وہ ملک پر اپنی مرضی و منشا کے قوانین کی متمنی ہیں اور بالآخر اقتدار کی خواہشمند۔ کیا کروڑوں کے اشتہار اسی لئے چھپوائے نہیں جاتے؟ کیا جلسے جلوسوں کے ہنگامے اسی لئے برپا نہیں کئے جاتے؟اور کیا عمران خان واحد ایک شخص ہے جو ایسے کسی بھی عمل کا حصہ ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اب کوئی شخص تمہاری آنکھوں میں کھٹکتا ہے اس لئے تمہیں اس بھوکے کی آنکھوں میں وحشت نظر آتی ہے۔

سیاست کے اس حجام میں سب ننگے ہیں۔سب ہی اقتدار کے خواہش مند ہیں، چاہے وہ ہمارے خلیفہ محترم ہوں یا عمران خان۔ مگر ایسی اصطلاحات کے ساتھ کھیل کر کسی کو نیچا دکھانا کسی کے نیفے کے نیچے وار کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس کا مزیدار پہلو یہ ہے کہ ہم ایسی باتوں سے خوشی کشید کرتے ہیں۔۔۔جیسے جس سے بیوی نہ سنبھالی گئی وہ ملک کیا سنبھالے گا؟ جس نے یہودیوں سے چندہ لے لیا وہ مسلمان کیا ہوا؟ جس کے بچے باہر پڑھیں اسکو پاکستان کے نظام تعلیم سے کیا لینا؟ جس کا علاچ لندن میں ہو وہ پاکستان کے ہسپتالوں کو کیونکر سدھارے اور جو اقتدار کا بھوکا ہو ۔۔۔۔اب آپ ہی بتائے کہ اس بھوکے کے ساتھ اب کیا کیا جائے؟ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں