وہ ایک تصویر جو بھلائے نہیں بھولتی ، ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا ایک استاد جو اختیارات کے ناجائز استعمال کا ملزم ہے، پولیس کے سیاہیوں میں گھرا ہوا یہ استاد میرے انحطاط پذیر معاشرے کا ایک گھناونا چہرہ ہے۔۔۔وہ معاشرہ جہاں کمزور پر جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی سزا پر عمل درآمد شروع ہوجاتا ہے۔ یقین مانئے جس دن سے نیب نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر خواجہ علقمہ صاحب کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا، میری چھٹی حس کہہ رہی تھی اب نیب کا شکنجہ سخت تر ہو گا، کیونکہ عام آدمی کی غلطی پر غصہ کرنے کو دل کس کا نہیں کرتا۔۔۔جرم کرنے والا کوئی مزدور اور مجبور ہو تو قانون کے سخت ہاتھ سرراہ ہی عدالت کا روپ بھی دھار لیتے ہیں۔ اور اسی ملک میں آپ نے کرپشن کے ملزم وزیراعظم، وزرا، سیاستدان ، غنڈے دندناتے پھرتے ہوئے بھی دیکھے ہوں گے۔ وہ عدالتیں جن سے دن دیہاڑے قتل کے ملزم چھوٹ نکلتے ہیں۔ جہاں منشیات فروش اعلی اقتدار کی کرسیاں پر تشریف آور ہوتے ہیں۔ اور تو اور شاہ کہ شہہ پر چلے جانے والے معمولی پیادے بھی ہتھکڑیوں کی قید سے آزاد رکھے جاتے ہیں۔۔۔
ایسے نہیں کہ میں کبھی بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہوں، یا خواجہ علقمہ کا شاگرد رشید، کبھی ان سے ملا بھی نہیں ہاں ایک بار دور سے دیکھا ہے اور ان کے ایک صدارتی خطبہ کو سنا ہے جب ایک کانفرنس سے وہ خطاب کر رہے تھے۔ مجھے ان کے لب و لہجے میں ایک استاد کی ساری عمر کا تجربہ جھلکتا صاف دکھائی دیا۔۔۔۔۔ان کی گفتگو انتہائی مدلل اور مناسب تھی۔ اور میرے دل نے کہا کہ اس شخص نے اپنے طالب علموں کو علم سے کچھ بڑھ کر بانٹا ہو گا۔ درباریوں اور خوشامدیوں کے جھرمٹ میں گھرا ہوا یہ استاد اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سٹیج پر جلوہ افروز ہوا ، اور کانفرنس کے بعد بھی درجنوں حواریوں نے انہیں ایک لمحہ بھی تنہا نہ ہونے دیا۔
ہمارے ملک میں چڑھتے سورج کے ساتھ ساتھ چلنے والےاپنی جھولیاں پھیلائے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور جونہی سورج کسی بدلی کی اوٹ کے پیچھے ہوا ان کا نام نشان بھی ملتا۔۔۔نیب کی عدالت میں آنکھیں نمناک کرنے والے استاد کی کہانی ان لوگوں کے لئے بھی نشان عبرت ہے جو طاقت اور اختیار کے دنوں میں ہر درباری کی آرزو اس کے کہنے سے پہلے پوری کر دیتے ہوں۔
پاکستان کے سرکاری محکموں میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے، ایک سرکاری آفیسر کے لئے سرکاری گاڑی پرائیویٹ استعمال کر لینا بھی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے، اور دفتر کے کسی ملازم سے گھر کا کام لینا بھی۔۔۔۔لیکن خواجہ صاحب والے معاملے میں ایک پورے پرائیویٹ کمپیس کا معاملہ ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کا لاہور کیمپس باوجود سنڈیکیٹ کے اعتراضات کے وائس چانسلر نے منظور کر دیا تھا اور وائس چانسلر سینڈیکیٹ کی مشاورت کے بغیر ایسا کرنے کے مجاز نہ تھے۔یہ کیس پچھلے دو سالوں سے آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ جب تک خواجہ علقمہ وائس چانسلر رہے ہوائیں بھی موافق چلتی رہیں، اب کچھ دو ہفتے پہلے ان کو یونیورسٹی سے گرفتار کر لیا گیا۔۔۔وہ درودیوار جو ایک استاد کے ایک عام استاد سے جامعہ کے اعلی ترین عہدے پر پہنچنے کے گواہ تھے انہوں نے وہ بدنصیب لمحے بھی دیکھے، اور وہ لمحہ اس سے بھی بھیانک تھا جب انہیں ہتھکڑیوں کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
معاملات جس بھی نوعیت کے تھے ایک استاد کے مرتبے کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے تھا۔ مگر افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا۔
ایسے نہیں کہ میں کبھی بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہوں، یا خواجہ علقمہ کا شاگرد رشید، کبھی ان سے ملا بھی نہیں ہاں ایک بار دور سے دیکھا ہے اور ان کے ایک صدارتی خطبہ کو سنا ہے جب ایک کانفرنس سے وہ خطاب کر رہے تھے۔ مجھے ان کے لب و لہجے میں ایک استاد کی ساری عمر کا تجربہ جھلکتا صاف دکھائی دیا۔۔۔۔۔ان کی گفتگو انتہائی مدلل اور مناسب تھی۔ اور میرے دل نے کہا کہ اس شخص نے اپنے طالب علموں کو علم سے کچھ بڑھ کر بانٹا ہو گا۔ درباریوں اور خوشامدیوں کے جھرمٹ میں گھرا ہوا یہ استاد اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سٹیج پر جلوہ افروز ہوا ، اور کانفرنس کے بعد بھی درجنوں حواریوں نے انہیں ایک لمحہ بھی تنہا نہ ہونے دیا۔
ہمارے ملک میں چڑھتے سورج کے ساتھ ساتھ چلنے والےاپنی جھولیاں پھیلائے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور جونہی سورج کسی بدلی کی اوٹ کے پیچھے ہوا ان کا نام نشان بھی ملتا۔۔۔نیب کی عدالت میں آنکھیں نمناک کرنے والے استاد کی کہانی ان لوگوں کے لئے بھی نشان عبرت ہے جو طاقت اور اختیار کے دنوں میں ہر درباری کی آرزو اس کے کہنے سے پہلے پوری کر دیتے ہوں۔
پاکستان کے سرکاری محکموں میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے، ایک سرکاری آفیسر کے لئے سرکاری گاڑی پرائیویٹ استعمال کر لینا بھی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے، اور دفتر کے کسی ملازم سے گھر کا کام لینا بھی۔۔۔۔لیکن خواجہ صاحب والے معاملے میں ایک پورے پرائیویٹ کمپیس کا معاملہ ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کا لاہور کیمپس باوجود سنڈیکیٹ کے اعتراضات کے وائس چانسلر نے منظور کر دیا تھا اور وائس چانسلر سینڈیکیٹ کی مشاورت کے بغیر ایسا کرنے کے مجاز نہ تھے۔یہ کیس پچھلے دو سالوں سے آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ جب تک خواجہ علقمہ وائس چانسلر رہے ہوائیں بھی موافق چلتی رہیں، اب کچھ دو ہفتے پہلے ان کو یونیورسٹی سے گرفتار کر لیا گیا۔۔۔وہ درودیوار جو ایک استاد کے ایک عام استاد سے جامعہ کے اعلی ترین عہدے پر پہنچنے کے گواہ تھے انہوں نے وہ بدنصیب لمحے بھی دیکھے، اور وہ لمحہ اس سے بھی بھیانک تھا جب انہیں ہتھکڑیوں کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
معاملات جس بھی نوعیت کے تھے ایک استاد کے مرتبے کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے تھا۔ مگر افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں