کراچی کے لئے چھبیس لاکھ ڈرائیونگ لائسنس کا مسئلہ

حقیقت میں یہ مسئلہ بہت بڑا ہے، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی ڈرائیونگ کی قابلیت کو جانچنا، کاغذات کی جانچ پڑتال اور پھر ڈرائیونگ لائسنس دینا یقینا جوئے شیر لانے جیسا مشکل ہو گا۔ اسی حوالے سے ڈنمارک میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا طریقہ کار سر راہے عرض ہے ۔ 
ہر شخص اپنے ڈاکٹر سے ایک صحت مندی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتا ہے اور ساتھ میں اپنی تصاویر ڈاکٹر سے اٹیسٹ کروا کے ایک سیل شدہ لفافے میں ڈال کر بلدیہ کے دفتر میں ایک درخواست جمع کروا دیتا ہے۔ اس درخواست کے ساتھ ایک پرائیویٹ ڈرائیونگ سکول کی جانب سے نصاب  ساتھ لگایا جاتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے کسی ڈرائیونگ سکول سے انتیس تھیوری کی  اور چوبیس پریکٹکل کی کلاسز کسی انسٹرکٹر کے ساتھ لی ہیں۔ آپ کا لائسنس کا امتحان عمومی طور پر کسی ڈرائیونگ سکول کے توسط سے بک کیا جاتا ہے۔ پہلے آپ سے تھیوری کا امتحان لیا جاتا ہے جس میں پچیس سوال پوچھے جاتے ہیں ان میں سے کم ازکم بیس سوالوں کے جواب درست ہونا لازمی ہے۔ یہ امتحان مختلف سچوئشنز کی تصاویر پر مبنی ہوتا ہے۔ جس میں پوچھا جاتا ہے کہ اس تصاویر میں دئے گئے حالات میں بتاو کہ کس طرح گاڑی چلاو گے یا یہاں کون سے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ 
اس کے بعد عملی امتحان لیا جاتا ہے۔ جس میں پولیس کا ایک آفیسر آپ سے گاڑی کے متعلق بنیادی معلومات کے بارے سوال کرتا ہے۔ جیسے بریک کام کر رہی ہے اس کو چیک کر کے دکھاو؟ گاڑی کی لائٹس ٹھیک کام کر رہی ہیں؟ انجن آئل کیسے دیکھا جاتا ہے وغیرہ ۔۔۔ان سوالوں کے تسلی بخش جواب کے بعد آپ اس کے ساتھ گاڑی چلاتے ہیں جو کم از کم آدھے گھنٹے کے دورانئے پر محیط ہو گی۔ آفیسر آپ کو شہر کے مختلف حصوں، سڑکوں، چوراہوں پر لے کر جائے گا اور آپ کی ڈرائیونگ کی عملی مہارت کا معائنہ کرے گا۔ اگر آپ اس کے معیار پر پورا اتریں گے تو آپ کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کر دیا جائے گا۔ 
اس بھٹی سے گذرنے کے بعد جو ڈرائیور سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں ان سے ٹریفک حادثات کا احتمال بہت حد تک کم ہوتا ہے۔ سٹرک پر لائنوں کا خیال رکھنا، ایک دوسرے کے آگے پیچھے اچھے انداز میں ڈرائیو کرنا ، اس قبیل کی دوسری خوبیاں اس طرح کے نظام کا ثمر ہیں۔ 
بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے کا تصور بھی موجود نہیں، اٹھارہ سال سے کم عمر لوگ بھی ڈرائیونگ سیٹ پر نظر نہیں آئیں گے۔ مگر ابھی ڈان بلاگ کی توسط سے پتا چلا ہے کہ صرف شہر کراچی میں اڑتیس لاکھ رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں جبکہ ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والوں کی تعداد بارہ لاکھ ہے۔ اور اوپر سے سختی کر دی گئی ہے کہ چھبیس لاکھ لوگ جلد از جلد لائسنس لیں اور لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے پر سخت جرمانہ کردیا جائے گا۔ فاضل مضمون نگار کا موقف تھا کہ لائسنس لینے کا عمل آسان بنایا جایا تاکہ جلد از جلد اکثریت کو لائسنس مل سکے۔ 
میرے خیال میں ڈنگ ٹپاو قسم کے منصوبوں کی بجائے حکومت کو ایک جامعہ طریقہ وضع کرنا ہو گا۔ اور دنیا میں رائج ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے طریقہ کار کو تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اپنے ملک میں لاگو کرنا ہو گا۔ جیسا طریقہ کار ڈنمارک میں وضع ہے اس سے ملتا جلتا طریقہ مہذب دنیا کے تقریبا سبھی ملکوں میں رائج ہے۔ اس نظام کی نقل کرنے کے کچھ زیادہ محنت بھی درکار نہیں۔ 

سب سے پہلے پورے ملک میں ڈرائیونگ کے تھیوری اور پریکٹیکل کا ایک یکساں سلیبس وضع کیا جائے۔ حکومت تمام ریٹائرڈ ٹریفک پولیس اور وارڈنز کو دعوت دے کہ وہ ڈرائیونگ سکول کھول سکیں، جو حکومت سے منظور شدہ نصاب کے مطابق لوگوں کو ڈرائیونگ کی تعلیم دیں۔ ڈرائیونگ کے امتحان میں جانے سے پہلے آپ کو ڈرائیونگ سکول سے ایک سند لینا ضروری ہو۔ جو اس بات کی گواہی ہو کہ آپ کو ڈرائیونگ کے قوانین کا مکمل علم ہے۔ اور آپ سڑک پر گاڑی چلانے سے بھی آشنا ہیں۔ لرننگ ڈرائیونگ لائسنس کو بالکل ختم کردیا جائے یا اتنا محدود کردیا جائے کہ ساتھ میں کسی تجربہ کار ڈرائیور کو بٹھائے بغیر گاڑی سیکھنے والا گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہ بیٹھے۔ 
تھیوری اور پریکٹیکل کو باقاعدہ امتحان کی شکل دے دی جائے۔ اور لوگوں کی سہولت کی خاطر یہ ان کی اپنی زبان میں ہو جیسا کہ ڈنمارک میں آپ ایک مترجم کی مدد سے اردو میں بھی ڈرائیونگ کا امتحان پاس کر سکتے ہیں۔ سکول کالجز کی سطح پر ڈرائیونگ کے متعلق بنیادی قسم کی معلومات نصاب کا حصہ بنانے میں کچھ حرج نہیں۔
 چھبیس لاکھ ڈرائیونگ لائسنس دینے کا مطلب لوگوں سے چند سو روپے لیکر ایک پرنٹڈ کاغذ دینا نہ ہو بلکہ لوگوں کو تربیت دینا ہو کہ لوگ سڑکوں پر محفوظ گاڑی چلا سکیں۔اس لئے آسانی پیدا کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہ ہو کہ جو لوگ لائن میں آ کر کھڑے ہو جائیں یا کسی موبائل یونٹ پر چلے جائیں وہ ڈرائیونگ لائسنس لیکر ہی لوٹیں۔
ہمیں یہ سمجھ لینا ہو گا کہ قوانین کی پاسداری کے علاوہ کوئی اور آپشن ہو ہی نہیں سکتا، آپ چند ہزار لگا کر قتل کا لائسنس حاصل کرنے کی کوشش خود سے ہی ترک کریں اور کبھی بھی ڈرائیونگ کی ابجد جانے بغیر گاڑی چلانے کی کوشش نہ کریں۔ 
کچھ لوگوں کے دلائل ایسے بھی ہیں کہ لائسنس لینے کا بھی کیا فائدہ پولیس نے دونوں صورتوں میں پیسے ہی لینے ہیں۔ ان لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس لینے کا نقطہ نظر تبدیل کیجئے۔ اس ڈاکومنٹ کا مطلب آپ کو ایک محفوظ ڈرائیور بنانا ہے اور اسی لئے قانون میں اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ناکہ یہ کاغذ پولیس سے بچانے کے لئے ہے۔ 
خدارا اپنی اور دوسروں کی جانوں سے مت کھلیں، اور ڈرائیونگ لائسنس اس لئے حاصل کریں کہ سڑک پر گاڑی چلانے کے قوانین سے آشنائی حاصل کر سکیں۔ 
یہ بلاگ ڈان نیوز پر چھپ چکا ہے ۔ ڈرائیونگ لائسنس یا قتل کا لائسنس



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں