مبا حثہ/ تقریرکیسے لکھی جائے؟

مبا حثہ/ تقریرکیسے لکھی جائے
اس کا جواب نہائت سادہ سا ہے ایک کاغذ لیں اور اس پر لکھنا شروع کر دیں۔ آپ تقریر لکھ لیں گے۔لیکن اب اس میں کیا لکھا جائے۔اکثر دوست اس بارے میں پریشان رہتے ہیں کہ وہ اپنی تقریر یا  مباحثہ خود نہیں لکھ پاتے۔وہ اچھا بول سکتے ہیں اچھا لکھ نہیں سکتے۔میں سمجھتا ہوں کہ جو اچھا بول سکتا ہے وہ اچھا لکھ بھی سکتا ہے۔کیونکہ لکھنے کا تعلق سوچنے سے ہے ۔اگر آپ اچھا سوچ سکتے ہیں تو آپ اچھا لکھ بھی سکتے ہیں۔تقریر لکھنے کا سب سے پہلا مرحلہ اچھا سوچنا ہے کہ ۔آپ جتنا اچھا جتنا اور جتنا اونچا سوچ سکتے  ہیں، آپ اتنا ہی اچھا اور اتنا ہی اونچا لکھ بھی سکتے ہیں۔ہاں اگر آپ سوچ نہیں سکتے تو شائد آپ اچھا لکھ نہ پائیں۔اور اگر آپ یہ کام خود نہیں کر نہیں سکتے تو پھر کیا کیا جائے؟پھر آپ اس طرح کریں کہ اچھا سوچنے والوں کی سوچ کو مستعار لیں۔سوچیں اور سمجھیں کہ اچھا سوچنے والے کس طرح اچھا سوچتے ہیں ان سبھی سوچوں کو جمع کریں پھر ان سبھی سوچوں کو جو آپ کی اپنی نہیں ہیں اور اپنے ذہن کی کسوٹی پر لا کر پرکھیں کہ آپ کے دل کو کونسی بات اچھی لگتی ہے ۔جو باتیں آپ کے دل پر اثر رکھتی ہوں ان باتوں کو لفظوں میں منتقل کر لیں۔ کوشش یہ کی جائے کہ جب آپ  لکھنے بیٹھیں تو آپ کے پاس اپنی تحریر کے متعلق مناسب مواد اور بیک اپ میٹریل ہونا چاہیے۔ 


 تقریر لکھنے کا مواد
آپ کے پاس ایک ذاتی ڈائری ہونی چاہیے جس میں آپ کے انتخاب شدہ اشعار، اقوال زریں وغیرہ کا ذخیرہ ہو۔ اس کے علاوہ کسی خاص موضوع پر لکھنے سے پہلے اس پر لکھی گئی تحاریر کا مطالعہ کرلیں اور اس میں مختلف نکات کو نوٹ کر لیں۔
وہ سارا مواد جو آپ نے اپنی تقریر کے لیے مختلف ا لنوع ذرائع سے اکٹھا کیا ہے۔کوئی شعر ڈھونڈا ہے، کوئی دلیل تلاش کی ہے ،کوئی استعارہ ملا ہے ،ایسی تمام چیزوں کو کاغذ پر منتقل کر لیں۔اس میٹیریل میں مختلف لوگوں کی رائے بھی شامل کر لیں کہ لوگ آپ کے موضوع کے متعلق کیا کہتے ہیں ۔لکھنے سے ذرا پہلےاس اپنے پر نظر دوڑائیں لیکن لکھتے وقت اس کو اپنے سامنے نہ رکھیں ۔پھر اپنے ذہن کے مطابق اس میٹیریل کے الجھے ہوئے دھا گو ں میں سے سلجھی ہوئی دلیلیں اپنے موضوع کی مطابقت سے علیحدہ کر لیں۔



 لکھنے کی ترتیب 

کسی بھی تقریر اور مباحثہ کے تین عمومی حصے ہوتے ہیں۔

آغاز یا افتتاحیہ
درمیان یا بیانیہ
اختتامیہ

اپنی گفتگو کو اپنے ذہن میں ترتیب دیں کہ آغاز کس انداز سے ہو گا۔اختتام پر کیا کیا جائے گا ۔دلائل کی ترتیب کیا ہو گی۔کہاں جا کر آپ اپنی تقریر کو جذباتی رنگ دیں گے۔ کہاں پر آپ لوگوں کی ذہنی رو کو موڑیں گے وغیرہ۔


آغاز

آپ کی تقریر کا آغاز موضوع کے ساتھ ساتھ آپ کا اپنا تعارف بھی ہوتا ہے۔اس آغاز کے لیے آپ کے پاس جو دلیل سب سے منفرداورموءثر ہے اسے سامنے لائیں( اس طریقہ کو اخباری طریقہ کار کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح شہ سرخی بتا تی ہے کہ فلاں جگہ کیا واقعہ پیش آیا اور تفصیلات بعد میں) کیونکہ سننے والے ہر مقرر کو آغاز میں تھوڑا سا وقت ضرور دیتے ہیں، دیکھنے اور سننے کے لیے کہ نیا آدمی کیا نیا لایا ہے۔ اور اگر آپ کچھ بھی نیا اور انوکھا نہیں لائے تو آپ کی آواز بھیڑ میں گم ہو جاتی ہے اس لئے سوچیے کہ آپ کچھ نیا کیسے لا سکتے ہیں
مباحثے کا ’’آغاز‘‘ لکھتے وقت تقریر سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ تقریر کا افتتاحیہ موضوع کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ لیکن مباحثے کا آغاز نقاب کشائی کے ساتھ ساتھ آپ کے دلائل کو ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ مباحثہ اپنی پہلی دلیل دیتے ہی موضوع کی اس خاص جہت کے حق یا مخالفت میں دلائل کی ایسی رو بہا تا ہے یا یوں کہیے کہ ایسی لڑی کا آغاز کرتا ہے جس پر بعد میں نہائت آسانی سے دلائل کے جھومر سجائے جا سکتے ہیں۔

تقریر کا پہلا رخ

آغاز کے بعد آپ تقریر کے پہلے رخ کا جائزہ لیجئے کہ موضوع کا جھکاؤ کس سمت میں ہے۔پہلے آپ اپنی گفتگو کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کریں جیسے کہ اگر موضوع’’ ہم زندہ قوم ہیں‘‘ ہے تو پہلے آپ اس بات پر دلائل دے سکتے ہیں۔دلائل سے اچھا لفظ توجیہات ہے۔آپ موضوع کی اس خاص جہت پر توجیہات پیش کریں۔کہ ہم زندہ قوم کیوں ہیں۔جیسے ہم تو وہ ہیں جو ٹینکوں کی باڑ کے آگے سینوں پر بم باندھ کر لیٹ جاتے ہیں۔ہم تو وہ ہیں کہ کوئی غدار اگر ہمارے راز چرانے کی کوشش کرے تو ہمارے کمسن اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے وغیرہ۔

دوسرا رخ
اس رخ میں آپ موضوع کی مخالفت میں توجیہات پیش کر سکتے ہیں۔ تقریر کے اندر موضوع کی مخالفت لفظ ٹھیک نہیں ۔ہم کہ سکتے ہیں کہ موضوع کے تاریک پہلو ؤ ں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ہم زندہ قوم ہیں کے پہلے رخ کے بعد مقرر رخ پلٹے کہ
؂تھے وہ تمہارے ہی آبا ء مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
ٹینکوں کی باڑ کے آگے لیٹنے والے رخصت ہوئے آج تو میرے دیس پر جاوید اقبال تیزابوں کے ڈرم لیے راج کرتے ہیں۔ اپنے دیس کی خاطر مرنے والے مٹ گئے،اپنے گھوڑوں کو سیبوں کے مربعے کھلانے والے آ بسے ہیں۔ ملک کی چالیس فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زند گی بسر کر رہی ہے وغیرہ
مباحثے میں دلائل مختلف انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ مباحثے میں تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے مخالفین کے موقف کو تسلیم نہ کریں ۔جیسے کہ مختلف لوگ دوران مباحثہ ایسا کرتے ہیں مباحثہ ایک یک رویہ سڑک ہے آپ اس پر صرف ایک ہی جہت میں سوچیں اپنے دلائل کو مختلف انداز میں مختلف رخوں سے پیش کریں جیسے
’’ تدبیر کے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے‘‘
آپ موضوع کے حق میں بولیں
آپ آغاز کریں اس حدیث قدسی سے
اے ابن آدم اک تیری چاہت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں جناب صدر!
تدبیر کے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے
 مباحثہ کا پہلا رخ
اس مباحثے کا پہلا رخ یوں ہو سکتا ہے کہ تدبیریں کیسے ہار جاتی ہیں۔ جیسے کوئی ابرہہ اللہ کے گھر کو ڈھانے کی تدبیر کرتا ہے تو تقدیر ابابیل بن کر ابرہہ کے ہاتھیوں کا بھرکس نکال دیتی ہے۔
اسی دلیل کو آپ ایک اور رنگ میں بھی پیش کر سکتے ہیں اگر تدبیریں کچھ کر سکتیں تو تقدیر کے آگے ابرہہ کے ہاتھوں کا کچومر نہ نکلتا۔
دوسرا رخ
اس مباحثے کا دوسرا رخ اس طرح پیش کر سکتے ہیں کہ تدبیریں کہاں کہاں ہاری ہیں اور کہاں کہاں ہاریں گی۔
اس وقت تمہاری تدبیری کہاں تھیں جب موسی کے شہر کا ہر بچہ قتل کر دیا گیااور موسی تے فرعون کے محل میں پرورش پائی ۔اس وقت تدبیریں کہاں تھیں جب نوح کے نافرمان بیٹے طوفان میں ڈوبے تھے۔
یعنی آپ مباحثے میں بھی دو رخ کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن اصل میں مباحثے کے دو رخ دو انداز ہیں کہ آپ دلیل کو دو مختلف طریقوں سے پیش کر سکتے ہیں اور دوسری جہت میں آپ مخالفین کے دلائل کے جواب دیتے ہیں
اختتامیہ
تقریر کا اختتامیہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ عمو ما تعمیری قسم کی تقا ریر کسی عہد یا وعدے پر، کسی دعا پریا کسی اچھوتی سوچ پر ختم کی جاتی ہیں۔آپ لمحہ فکریہ کو اجاگر کرنے کے بعد سبھی سننے واکوں کو دعوت فکر دیتے ہیں جیسے،
آؤ وعدہ کریں کہ آج کے روشن دن کی گواہی میں ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بر عکس مباحثے کا اختتام چند چبھتے ہوئے سوال لیے ہوتا ہے کہ موضوع کے حق والے یا مخالفت والے اسے کیوں تسلیم کرتے ہیں جیسے،
جمہوریت کے موضوع پہ جمہوریت کے مخالفوں سے ہم کہیں کہ اگر وہ اتنے ہی جمہوریت کے مخالف ہیں تو یہ جمہوریت زدہ معاشرہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے وغیرہ۔



تقریر ، مباحثے کے لیے مواد کہاں سے لایا جائےۤ؟

تقریر اور مباحثے دراصل آپ کے علم جذب کرنے کی صلاحیت کو نکھارتے ہیں۔ ہم بہت زیادہ پڑھی ہوئی باتوں کو اس خوبصورت انداز میں دلائل کا روپ دیتے ہیں کہ سننے والوں کے پاس اس کا کوئی جواب اور جواز نہیں ہوتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا میٹیر یل کہاں سے اکٹھا کیا جائے؟
اگر آپ کسی شخصیت کے بارے میں لکھنے جا رہے ہیں تو اس کے بارے میں متعلقہ معلومات اکھٹی کریں۔اس میٹیریل میں اس کے کردار اور فن پر کتابیں ہو سکتی ہیں۔ اخباری کالم ،تراشے، رسائل وغیرہ۔
ان سبھی دلائل کو ایک جگہ پر اکٹھا کر لیں ساری باتوں کو پڑھنے کے بعد جو نچوڑ اور حاصل مطالعہ ہے اس کو اپنے ذہن کے مطابق ترتیب دیں لیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی مباحثے کی تیاری کرنے والے ہیں تو اس کو صفحہ ءِ قرطاس پر منتقل کرنے سے پہلے آپ کے ذہن میں جو دلائل ہیں ان کو لکھ لیں پھر لوگوں سے رائے لیں جو دلائل آپ کے حق میں ہیں ان کو بھی لکھ لیں اور جو مخالفت میں ہیں ان کے مناسب جوابات تلاش کریں ،تاکہ آپ مخالفین کے سوالوں کو پہلے سے ہی کسی موثر انداز میں زائل کر دیں ۔جو لوگ مباحثوں اور تقاریر کے  مقابلہ جات میں حصہ لیتے رہتے  ہیں ،ان کو چاہیے کہ اپنی ڈائری مرتب کریں ۔یعنی اخبار و رسائل کے مطالعہ کے بعد ان کے نوٹس لیں ۔خصوصاً قابلِ بحث موضوعات کے حق میں جو دلائل ہیں انہیں اپنی ڈائری میں لکھتے جائیں اچھے اشعار کا ریکارڈ رکھیں۔یہ میٹیریل آپ کو تقریر اور مباحثوں کے لیے  بیک اپ میٹریل کا  کام دے گا۔ کتابوں و رسائل سے مواد تیار کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھیں کہ صرف مستند دلائل اور حوالوں کو ہی اپنی گفتگو کا حصہ بنائیں۔متنازعہ 
مسائل ہرگز ہرگز نہ چھیڑیں۔

مباحثوں میں قر آ نی آیا ت اور احا د یث کا استعمال
عموماً مباحثوں میں کمزور جہت میں بولنے والے اسلام کے حوالوں کو لٹھ بنا کر لوگوں کو ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ بہت احسن فعل نہیں ہے۔آیات اور احادیث کے حوالے ضرور دیں لیکن ان پر بہت لمبے لمبے پیرے نہ لکھیں کیونکہ اسلام اور آیات صرف مسلمانوں کے لیے دلیل ہو سکتے ہیں غیر مذہب والوں کے لیے نہیں۔اپنے دلائل کو عقل و خرد پر مبنی اس انداز میں سامنے لائیں کہ بلا تفریق 
مذہب و ملت وہ سب کے لیے قابل قبول ہوں۔

نئے لکھنے والوں کے مسائل اور چند مشورے

عموما نئے لکھنے والے اس محنت سے جی چراتے ہیں جو ایک تقریر اور مباحثہ لکھنے کے لئے درکار ہے۔ کیونکہ آغاز میں تو یہ اور بھی مشکل ہےاس لئے وہ  اس کام کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ایک مناسب تقریر لکھنے کے لئے اس کو دو تین مرتبہ لکھا جانا چاہیے۔ سب سے پہلے آپ ایک ڈرافٹ تیار کریں جس میں آپ نے اپنے بیک اپ میٹریل کی مدد سے 
افتتاحیہ، بیانیہ اور اختتامیہ کی ترتیب سے اپنے خیالات کو تحریر کرنا ہے۔ اس کے بعد اس لکھے ہوئے میٹریل کو دو تین دفعہ پڑھ کر ایک نیا ڈرافٹ تیار کریں جو آپ کے تقریر کے انداز سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہ بات بہت سمجھنے کی ہے کہ تحریر اور تقریر کا اسلوب تھوڑا مختلف ہے۔ آپ ایک اچھے نثر پارے کو اچھی تقریر کی صورت نہیں پڑھ سکتے ، اس کو تقریر میں ڈھالنے کے لئے اس کو گفتگو کے اسلوب پر لانا چاہیے۔ 
جب آپ اپنی تحریر کو تقریر کے انداز میں لے آئیں گے تو اس کا انداز تھوڑا بدل چکا ہو گا، الفاظ کی ترتیب کچھ مختلف ہو گی۔۔۔کیونکہ بولنے میں کچھ چیزیں لکھنے سے مختلف ہی ہوتی ہیں۔ 
پاکستان میں عمومی طور پر تین سے پانچ منٹ تقریر اور مباحثہ کا سٹینڈر وقت تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت کے مطابق تحریر لکھنے کے لئے آپ کو ایک ہمت درکار ہوتی ہے۔ اس لئے کوشش کریں کہ تین مختلف نشتوں میں تحریر کے تین حصوں کو لکھیں۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ آپ ایک نشست میں اس کو ختم کرنے پر قدرت حاصل کر لیں گے۔ 
جو الفاظ آپ نے خود سے تراشے ہوں ان پر مشتمل تقریر کا مزہ کسی سے لئی گئی ادھار تقریر کے مزے سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ اس لئے کوشش کریں کہ اپنی تقریر اور مباحثہ خود سے لکھیں۔ آغاز میں کسی سے مدد بھی لی جاسکتی ہے لیکن اس کو عادت مت بنایئے۔ 

کیا اس تحریر سے آپ کو تقریر لکھنے میں کچھ مدد ملی ، اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔  

2 تبصرے: