میری زمین میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔۔۔

دم مرگ لکھوں گا لہو سے اپنے ۔۔۔میرا پاکستان۔۔۔۔۔ کہ میری زمین میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔مجھے لگتا ہے مجھے اسی مٹی سے بنایا گیا جو میرے دیس کی مٹی ہے۔۔۔۔۔میری گھٹی میں جو شہد کا ایک قطرہ تھا وہ بھی میرے گاوں کی بیری کے پھولوں سے کشید کیا گیا تھا۔۔۔۔وہ جو پانی میں نے پہلی بار پیا تھا وہ بھی اسی دیس کی دھرتی نے اگلا تھا۔۔۔وہ جس کپڑے نے میرا تن ڈھانپا تھا وہ  بھی میرے اپنے کھیت کی کپاس سے بنا گیا تھا۔۔۔۔وہ پھل جن کے نام مجھے بہت بعد میں پتہ چلے تھے سب کے سب میرے باپ نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کیے تھے۔۔۔۔۔جس ٹکڑے کا نام روٹی تھا  وہ بھی میرے گھر والوں نے اپنی زمین سے سینچا تھا۔۔۔۔مجھے سب کچھ اس زمین نے دیا تھا بس ایک چیز میرے لیے آسمان
سے اتری تھی اور وہ میری ماں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمان سے اتری میری ماں نے مجھے اس دھرتی سے اس طرح جوڑ دیا کہ اب مجھے اس کے عکس میں اپنی ماں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔
میرا رنگ گندم کا رنگ نہیں اس کھلیان کا رنگ ہے جس کے ہر خوشے سے دہقان کی امیدیں جڑی ہیں۔۔۔میرے خواب اب بھی کپاس کے پھولوں کے صورت کھیتوں میں اگتے ہیں۔۔۔۔ہر کٹائی کے ساتھ اس دھرتی سے محبت کا قرضہ اور لیتا ہوں اور سوچتا کہ کبھی اس احسان کو اتار پاوں گا کہ نہیں۔۔۔۔
جناب صدر
وطن کی مٹی کی قسمیں کھانے والے آج بازار میں عام ملتے ہیں، سوداگروں نے دھن کی لالچ میں کس کس چیز کا سودا کر چھوڑا یہ سوال ابھی تشنہ جواب ہے۔۔۔۔۔آج سبزہ زار دھرتی کا سبز پاسپورٹ جس شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس شک کا بیج بھی نافرمان بیٹوں نے بویا ہے۔ ۔۔وہ جن کے اندھے لالچ نے ملک کی گلیوں میں اندھیرا کر چھوڑا وہ بھی اسی بستی کے بسنے والے ہیں۔ ۔۔۔وہ جو اپنی عیاشی کا بل عوام کے پٹرول کے خرچ میں ڈال دیتے ہیں وہ بھی کوئی غیر تو نہیں۔۔۔۔جنہوں نے ہنر و فن کے بجائے بھیک بانٹنے کو ترجیح دی ایسے منصوبہ ساز بھی میرے ہی شہر کے مکیں ہیں۔ جو اپنے طویلے کو طویل کرنے لئے سرکار کی زمین پر قابض ہو گئے ایسے وسعت پسند بھی صرف ہمیں ہی میسر ہیں۔ جو کاغذی کالونیاں تعمیر کر کے لوگوں کو گھروں کے خواب بیچتے ہیں وہ ہرگز اغیار کے سپاہی نہیں۔ ایسا ایسا وطن فروش ہے یہاں کہ دھرتی جن کی داستانوں سے لرزاں ہے۔۔۔۔
جناب صدر
افسوس صد افسوس کہ میرے ملک کے لوگوں کی نوسربازی اب خبر سے گر کر مزاح کا مواد ٹھہرتی ہے۔۔۔وہ جو بچیاں کم سنی میں کسی بڑے کے گناہ کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔۔۔۔ یا وہ بچے جن کے جسموں کی نمائش چند لوگوں کا کاروبار ٹھہرتی ہے۔ وہ جو ظلم کی تصاویر بیچنے والے جس طرح سے وطن کا خاکہ بیرون ملک بھجتے ہیں۔۔۔کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ جو
سونے کے بدلے وطن بیچتے ہیں
وہ اپنی ہی ماں کا کفن کا کفن بیچتے ہیں۔
عالی وقار
اس لٹتی پٹتی دھرتی کا ایسا ایسا نوحہ نوشتہ دیوار ہے کہ مجمع میں آگ لگ جائے۔۔۔لیکن میں کوئی ایسی عمارت تعمیر کرنے نہیں آیا جو میرے جانے کے پانچ منٹ بعد دھڑم سے گر جائے۔ شکوہ ظلمت شب میں ایک چراغ جلانے کا خواہشمند ہوں ۔۔مجھے اپنے دور کے لوگوں سے امید بڑی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بدلیں گے پاکستان۔۔۔یہ سجائیں گے میرے وطن کے لبوں پر لالی اور پھر چاند میری زمین پھول میرا وطن کی تعبیر سامنے آئے گی۔ اور وہ وطن جو میرا پہلا اور آخری حوالہ ہے اس کا پرچم دنیا میں سربلند ہو گا۔۔۔۔۔

ہمیں آج کے دن یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ بالوں میں سفید و سرخ رنگ ڈال لینے سے۔۔۔یا بلیچ کے بل پر جو اجنبیت میں خریدنے کی کوشش کرتا ہوں اس سے شاید میرے احساس محرومی کو تو تھپکی ملتی ہو لیکن میری شناخت ہمیشہ پاکستانی ہی رہتی ہے۔۔پردیس میں اپنے وطن کے نام سے جان چھڑوانے والے لوگ اس تجربہ سے گذر چکے اور بالآخر واپسی کے راستے پر ہیں۔۔۔۔لیکن وہ کیا کریں کہ وہ وہی رنگ اب دیس کی گلیوں اور دیواروں پر دیکھتے ہیں۔۔۔مجھے تسلیم کہ میں جس رنگ کے بھی پر لگا لوں میں پاکستانی ہی رہوں گا۔۔۔ا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں