سفر چین کی چند یادیں

پاکستان اور چین کی دوستی کو پہاڑوں کی طرح بلند اور سمندروں کی طرح گہری سمجھا جاتا ہے،دو ہزار سولہ کے اوائل میں مجھے چائنا میں دو ہفتے گذارنے کا اتفاق ہوا، میرے اس سفر کا مقصد چائنا سے برآمدات کے مواقع کی تلاش ، اور چائنہ کی سیر تھا، گذشتہ چھ سال یورپ میں گذارنے کی بنا پر مجھے کسی بھی نئے ملک میں جاتے ہوئے کچھ گھبراہٹ نہیں ہوتی، لیکن چائنا کے بارے سن رکھا تھا کہ وہاں گوگل پر پابندی عائد ہے اس لئے جی میل، فیس بک، یوٹیوب، گوگل کے نقشہ جات، گوگل ٹرانسلیٹ اور درجنوں ایسی ایپلیکشنز جن کی ہمیں روزمرہ میں عادت ہو چکی ہوتی ہے، چائنا میں دستیاب نہیں، چائنا میں کال کرنے کے لئے ووی چیٹ نامی ایک ایپلیکشن بہت مقبول ہے۔ اس کو انسٹال کر لیا گیا، اور جن جن منزلوں پر جانا تھا ان کے چائینیز زبان میں پرنٹ نکال کر رکھ لئے، تا کہ وہاں اگر کسی سے راستہ پوچھنا پڑے تو با آسانی پوچھا جا سکے، ہاں چائنا کے بارے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے لوگوں کی انگریزی زبان بھی کافی ماٹھی ہے۔ پھر ہر پاکستانی کی طرح یہ سوچا گیا کہ ائیر پورٹ پر کون استقبال کرے گا، ایسے میں اچھے دوست اور یونیورسٹی کے کلاس فیلوز ہی ساتھ نبھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، حسب خواہش چائنا میں بھی ہمارے کافی سارے دوست موجود تھے، خصوصی طور پر بیجنگ جہاں مجھے جانا تھا، وہاں پر تین قریبی دوستوں کی موجودگی مجھے بہت سے پریشانیوں سے آزاد کئے ہوئے تھی، ائیر پورٹ پر یونیورسٹی کے دوست اور جونئیر محسن چیمہ جو یہاں چائینز اکیڈمی اور ایگری کلچرل سائینسز میں ماسٹرز کی تعلیم میں مصروف ہیں مجھے لینے کے لئے موجود تھے، ان کے ساتھ ایک چائینز حلال ریسٹورنٹ پر دوپہر کا کھانا کھایا، میرے خیال کے برعکس بیجنگ میں جابجا حلال ریسٹورنٹ نظر آتے ہیں، ان ریسٹورنٹس کے باہر الطعام السلامیہ کے الفاظ باآسانی پڑھے جا سکتے ہیں، ہوٹل کے ویٹر کی وردی میں سر پر تبلیغی جماعت طرز کی نماز پڑھنے والی ٹوپیوں سے بھی اسلامی ریسٹورنٹس کو پہچانا جا سکتا ہے۔ کھانے کے معاملہ پر اتنی تفصیلات صرف کرنے کا وجہ یہ بھی ہے چائنا میں کسی بھی سیاح کو سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہی درپیش ہوتا ہے، ہماری انگریزی تو وہاں بے کار ہوتی ہی ہے، ہمارے ہاتھوں کے اشارے بھی کسی کی سمجھ نہیں آتے۔ ایک حلال ریسٹورنٹ پر گیا، اس سے پوچھا کہ بھائی جی کیا یہ حلال ہے، حالانکہ حلال کے لفظ سے انہیں کچھ پتہ تو چلنا چاہیے تھا، لیکن اس نے جو جواب مجھے دیا اس سے یہی سمجھا کہ اسے انگریزی نہیں آتی۔ میں نے چائنا کا ویزہ ڈنمارک سے حاصل کیا تھا، اس ویزے کے ساتھ ٹکٹ کی کاپی اور ہوٹل کی بکنگ کے کاغذات لف کئے گئے تھے، مراد یہ کہ ان دنوں کے لئے مجھے کہاں ٹھہرنا ہے اس کا اہتمام ویزہ کی درخواست دیتے ہوئے ہی ہو گیا تھا۔ میرا ہوٹل شہر ممنوع کے علاقے کے پاس تھا۔ عمومی طور پر سستے ہوٹلز سیاحوں کو آفر نہیں کئے جاتے ، ایک خاص حد سے زیادہ قمیت والے ہوٹل میں ہی سیاحوں کو رہائش کا حق حاصل ہوتا ہے، اس کیوجہ سیکورٹی کے معاملات ہیں، چائنا میں سیکورٹی کا سارا نظام ہی نقل کرنے کا قابل ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے سیکورٹی مسائل کو نمٹانا اور امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنا بلاشبہ چائنہ کے متعلقہ شعبوں کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہر ٹرین اور میٹرو کے اسٹیشن پر بنا چیکنگ کے آپ کا سامان اندر نہیں جانے دیا جاتا، ہر جگہ پر سیکورٹی سکینر لگے ہوئے ہیں، اور اتنی بڑی آبادی کو سیکورٹی سکینرز سے مسلسل گذارنا اور اس انداز میں گذارنا کہ لوگوں کا وقت ضائع نہ ہو، اور لمبی لائنیں بھی نہ لگیں یہ عمل واقعتا قابل داد ہے۔
بیجنگ اور شنڈونگ کے شہروں میں ان دو ہفتوں کے قیام سے جتنے چاہنیز لوگوں سے ملاقات ہوئی ان کو پاکستان کے حوالے مثبت پایا، لوگ پاکستانیوں کو دوست سمجھتے ہیں، بات کرنے میں نہیں ہچکچاتے، حتی کے بیجنگ کا کافی گروپ جو سیاحوں کو چائے کافی پلانے کے بہانے لوٹتا ہے، وہ بھی پاکستانیوں سے ملتے ہی پہلا فقرہ یہی کہتا ہے اوہو ، ہم تو دوست ہیں۔ کیونکہ چائنہ میں کمیونیکشن ایک بڑا مسئلہ ہے، اگر آپ کسی سے راستہ بھی پوچھیں تو نوے فیصد لوگ آپ کو راستہ نہیں سمجھا پاتے، ایسے ماحول میں کچھ نو سرباز خصوصی طور پر نوجوان عورتیں سیاحوں کو بے وقوف بنا کر کسی چائے، یا کافی والے ہوٹل پر لے جاتی ہیں، ہم ایسے دیسیوں کے چائے کافی اور گوروں کو بئیر یا شراب کی دعوت دیتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر ان کا پہلے سے ہی رابطہ ہوتا ہے، اور وہاں کوئی بھی مشروب عام مارکیٹ سے سو گنا زیادہ تک مہنگا ہو سکتا ہے۔ سیاحتی علاقوں کے آس پاس اگر کوئی نوجوان خاتون آپ کو چائے کی دعوت دے تو بنا سوچے سمجھے اس سے اجتناب کیجئے گا، ورنہ جان لیجئےکہ ہم نے یہ سبق فیس ادا کے کے حاصل کیا ہے۔
بیجنگ میں سیر کرنے والی جگہوں کی اگر بات کی جائے تو دیوار چین دیکھے بغیر چلے آنا چین نہ آنے کے مترادف ہی ہے۔ دیوار چین کے محفوظ ترین حصوں میں ایک حصہ بیجنگ کے نواح میں واقع ہے، جہاں جانے کے خصوصی ٹرین سروس بنائی گئی ہے۔ دیوار چین دیکھنے والوں میں صرف غیر ملکی سیاح ہی نہیں بلکہ اسی فیصد لوگ چائنا کے دیگر شہروں سے اس دیوار کے درشن کرنے کے لئے آتے ہیں، یہاں پر ٹکٹ خریدنے کے بعد جونہی ٹرین  پر چڑھنے کے لئے پلیٹ فارم کے دروازے کھلتے ہیں بالکل دیسی انداز میں لوگوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں، اور ہماری لوکل بسوں کی طرح دوست اپنے دوستوں کے لئے سیٹوں پر پیر پسار کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ سیٹھ تو میرے پپو یار کی ہے۔ ہم نے اس طرح کی دوڑ دھوپ والے سارے کام نوجوان محسن چیمہ کو دے رکھے تھے جو دوڑ دوڑ کر ہمارے لئے سیٹ کی جگہ رکھ رہے تھے۔ اگر آپ دیوار چین دیکھنے جانے کا منصوبہ رکھتے ہوں تو علی الصبح اس کام پر روانہ ہو جائیے تا کہ آپ اطمینان سے دیوار کی برجیوں پر چڑھ سکیں۔ دیوار چین کے اس حصے کے پاس ایک سنگ مرمر کی کنندہ تختی نصب ہے جس پر اردو اور چائینز زبان میں ایک عبارت لکھی گئی ہے کہ اس دیوار کا ایک حصہ بنانے کے لئے پاکستانی حکومت کی طرف سے ہدیہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس تختی کو دیکھ ایک دفعہ سر فخر سے بلند ہوتا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بھی دوستوں کی مدد میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔
دیوار چین کے علاوفاربڈن سٹی جس کا ترجمہ شہر ممنوع کیا جاسکتا ہے قابل دید ہے۔ چائنا پر پانچ سو سال سے زیادہ حکومت کرنے والی منگ بادشاہت کے بادشاہوں کی رہائش گاہیں، جہاں کبھی پرندہ پر نہ مار سکتا تھا، طاقت کے ایوان، حسب و نسب کی جاہ و حشمت سے لدے دربار، بہترین کاریگروں کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے شہہ پارے، اس شہر کا ایک ایک نقش اپنے اندر کہانی لئے ہوئے ہے۔ بادشاہوں کا طرز زندگی اپنے خدوخال کے ساتھ یہاں آ کر مجسم ہو جاتا ہے۔  اس سے ملتی جلتی تفریحی کشش سمر پیلس بھی ہے، جہاں موسم گرما میں بادشاہ سیر کرنے کو نکلتے تھے۔ بیجنگ کی جدید تعمیرات میں اس کا اولمپک سٹیڈیم اور اس کا زیر زمین میٹرو کا نظام قابل تعریف ہیں۔ اولمپک کے اس سٹیڈیم کو برڈ نیسٹ یعنی پرندے کا گھونسلہ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی ساخت کچھ اس انداز میں بنائی گئی ہے کہ دور سے دیکھنے سے تنکوں سے بنا ہوا ایک آشیانہ لگتا ہے۔ جبکہ زیر زمین میٹرو کا نظام باوجود اپنی وسعت کے انتہائی مستعدی سے کام کرتا ہے۔ بہت کم وقت میں تیار ہونے والا یہ میٹرو سسٹم ابھی شہر میں آمدورفت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور سستا اتنا ہے کہ مفت ہونے کا گماں ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اوسلو کے سفر میں اوسلو شہر سے اوسلو ائیرپورٹ کی ٹکٹ خریدی جو ایک سو اسی کرون کے برابر تھی، اور یہاں اس جتنا طویل سفر آپ شاید بیس سے تیس نارویجئن کرون یا چار پانچ سو روپوں میں کر لیں۔
چین کی سب سے بڑی پہچان اس کی صنعت ہے۔ کہتے ہیں کہ چین ہر طرح کی مارکیٹ کے لئے مصنوعات بناتا ہے، غریب ایشائی ملکوں سے لیکر امیر یورپی ممالک تک ہر جگہ چائینا کی مصنوعات دیکھنے کو ملتی ہیں، جن میں قیمت اور کوالٹی کا فرق بھی اسی حساب سے ہوتا ہے۔ یہاں آکر مجھے گارمنٹس اور لیدر بیگز کی ہول سیل مارکیٹس دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس سفر میں دو مقامی چائینز دوست بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بیگ جو یورپ میں آکر دس پندرہ ہزار روپے قیمت پاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ چائنا سے دو تین ہزار روپے میں تیار ہو سکے۔ لیکن آپ جوں جوں کوالٹی کی طرف جائیں گے آپ کو اشئیا کی قیمت برابر ہی لگتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ چائنا میں صرف ہلکی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، لیکن میرے خیال میں آپ جس کوالٹی کی چاہیں چائینزمصنوعات تیار کرواسکتے ہیں۔

سفر میں جن پریشانیوں کی توقع تھی وہ سبھی پیش آئیں، سب سے بڑا مسئلہ زبان کا لگا، بیجنگ ویسٹ ریلوے سٹیشن پر دس پنردہ مختلف لوگوں سے کہا کہ میرے موبائل کو وائی فائی سے کنکٹ کر دو کیونکہ ہال میں فری وائی فائی تھا، لیکن اس کو جوڑنا کیسے ہی سمجھ نہیں آ رہا تھا، وہاں ایک جگہ ہدایات نامہ بھی لکھا تھا، لوگوں کو اشارے سے سمجھایا بھی کہ میں فقط اتنا چاہتا ہوں جو ہدایت نامے میں لکھا ہوا ہے، لیکن کسی سے میری مدد نہ ہوسکی۔ گوگل کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہوئی، فیس بک بھی اپنی یاد دلاتی رہی، لیکن خوش آئیند یہ تھا جہاں جہاں گیا عمومی طور پر لوگ اچھے طریقے سے ملا، حلال کھانے کی جگہیں ملتی رہیں، نظام آمدورفت اور خصوصی طور پر تیز رفتار ٹرین جو تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے اس نے بہت متاثر کیا۔ چائینر لوگ جلدی گھل مل جانے والے سیدھے سادھے لوگ محسوس ہوئے۔ لیکن یہاں بھی غریب اور امیر کے درمیان کھنچی ہوئی لکیر کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں کے ساتھ ہاتھ سے کھنیچی جانے والی ریڑھیاں بھی سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں، ، اپنی خواہشات سے بندھے ترقی اور جلد ترقی کی خواہش رکھنے والے چائینز سے چائنہ لبریز دکھائی دیا۔ لیکن پاکستان سے بڑی آبادی کو احسن انداز میں ترقی کے سفر پر گامزن دیکھ کر دل میں موہوم سی امید جاگتی ہے کہ شاید ترقی کا یہ گھومتا ہوا پہیہ ہمارے دیس کی گلیوں کا رخ بھی کرے۔ گراں خواب چینیوں کی طرح گراں خواب پاکستانی بھی اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کی کوشش میں جت جائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں