وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ رسم و شاہبازی
جی ہاں عالی وقار ، معزز سامعین و حاظرین
خراب کر گئی سے شاہین بچوں کو صحبت زاغ، کہ اب میری اڑان میں وہ بلند نگاہی نہ رہی، اب تو رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی، اب ساز کا یہ دیوانہ سوز سے بے گانہ، ، اس معاشرے کے منافقت زدہ ماحول میں میرے الفاظ فقط الفاظ ہی ٹھریں گے، میں جو کہتا ہوں میرے گلے سے نکلنے والی آوازوں کے سوا کچھ بھی نہیں، کہ میرے صؤفے ہیں افرنگی میرے قالین ایرانی، لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی، ۔۔۔وہ کون سا سچ ہے جو مجھے ماحول سے ملا ہے، کہ اب میری آنکھیں کسی اور کی تجوری کی طرف ہیں، اب مجھے اپنے صلاحتیوں پر اعتبار تک نہیں، میری ترقی میرے تیزی سے جھوٹ بولنے پر منحصر ہے، میں دھوکا دوں تو لوگ مجھے ہوشیار سمجھتے ہیں۔ میں وعدہ سے مکر جاوں تو جہاں دیدہ، میں خراب مال پر منافع بناوں تو تاجر، میں پڑوسی کی دیوار پھلانگوں تو دلیر اور شجاع، ، میری جیب میں نوٹ ہوں تو عزت دار، اور علم کے موتیوں سے دامن بھرا بھی ہو تو لوگ روند کر گذر جائیں، وہ کیا بدبو دار معاشرہ ہے جس میں میں زندہ ہوں، اور وہ کیا ہے جو مجھے سکھایا جا رہا ہے۔ علم بانٹنے والوں سے سوال کرتا ہوں کہ ایک لمحے کو ٹھہریے، ہم سے کچھ کوتاہی ہو گئی ہے۔
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر جو بھی دیوار اٹھاو گے کج ہو گی ۔۔
عالی وقار
ہمارا معاشرہ مسلسل انحطاط کے سفر پر ہے، میرے بولنے سے اس تنزلی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔لیکن میری خواہش ہے میری آواز سننے والا ایک لمحے کو ٹھہرے اور سوچے۔۔کہ وہ چھاوں جو اس کے آس پاس ہے اس میں کوئی سکھ بھی ہے کہ نہیں، وہ صحبت اور ماحول جو اس نے اپنے اردگرد بانٹا ہے اس میں عافیت ہے بھی کہ نہیں،
وہ شاہین بچہ جسے نگاہ بلند سخن دلنواز ہونا تھا، ابھی جان پرسوز بنا ہے کہ نہیں، وہ جس کی خودی کو سربلند ہونا تھا ابھی اپنی تقدیر کاکاتب بنا کہ نہیں، جس کا لہو جھپٹنے اور پلٹنے سے گرم رہتا تھا کیا اب بھی اس کی نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے ہیں کہ نہیں، ۔۔۔چلیے چھوڑیئے نتائج کی بات چھوڑئے، کیا ایسا ماحول بنادیا گیا ہے، کیا ایسی صحبت سجادی گئی ہے جس میں کوئی بچہ شاہیں کے تصور شاہین پر پورا اترنے کی سعی کر سکے ، وہ کیا خواب تھا جو شاعر مشرق نے پیش کیا، اور کیا اتنے سالوں بعد اس کی تعبیر پالی گئی۔۔کیااس نظام تعلیم نے ہماری اخلاقیات کی اقدار کو دوام بخشا، کیا مدرسے سے نکلا طالب علم ایک بہتر انسان بن گیا، کیا کوئی معیار ہے جس پر ہم خود کو پرکھ سکیں۔۔دین کے معیار احسن مگر سخت، کیا معاشرت کے کسی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے کہ ہم نے اب بہتر انسان پیدا کرنے شروع کر دیے۔ حضور والا، اس سنگ مرمر جو آپ تراشیں گے میں وہی بنوں گا،
میں ہوں وہ سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دنیا
یا پتھرائی ہوئی آنکھ جا نیلا پتھر جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
ایک انصاف کا پتھر بھی ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہے اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں۔
مجھے دھڑکنے عطا کرنے والو ناخداو آج میں تم سے مخاطب ہو ، کہ میرے ماحول میں مقابلہ نہیں ہار کو سینے سے لگانے کا ہنر عطا کر دیجئے، کہ تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ، دل مرتضی سوز صدیق دے، کہ پھر وہی تیر سینے کے پار کر ، تمنا کو سینوں میں بیدار کر ،
کہ بھجی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ رسم و شاہبازی
جی ہاں عالی وقار ، معزز سامعین و حاظرین
خراب کر گئی سے شاہین بچوں کو صحبت زاغ، کہ اب میری اڑان میں وہ بلند نگاہی نہ رہی، اب تو رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی، اب ساز کا یہ دیوانہ سوز سے بے گانہ، ، اس معاشرے کے منافقت زدہ ماحول میں میرے الفاظ فقط الفاظ ہی ٹھریں گے، میں جو کہتا ہوں میرے گلے سے نکلنے والی آوازوں کے سوا کچھ بھی نہیں، کہ میرے صؤفے ہیں افرنگی میرے قالین ایرانی، لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی، ۔۔۔وہ کون سا سچ ہے جو مجھے ماحول سے ملا ہے، کہ اب میری آنکھیں کسی اور کی تجوری کی طرف ہیں، اب مجھے اپنے صلاحتیوں پر اعتبار تک نہیں، میری ترقی میرے تیزی سے جھوٹ بولنے پر منحصر ہے، میں دھوکا دوں تو لوگ مجھے ہوشیار سمجھتے ہیں۔ میں وعدہ سے مکر جاوں تو جہاں دیدہ، میں خراب مال پر منافع بناوں تو تاجر، میں پڑوسی کی دیوار پھلانگوں تو دلیر اور شجاع، ، میری جیب میں نوٹ ہوں تو عزت دار، اور علم کے موتیوں سے دامن بھرا بھی ہو تو لوگ روند کر گذر جائیں، وہ کیا بدبو دار معاشرہ ہے جس میں میں زندہ ہوں، اور وہ کیا ہے جو مجھے سکھایا جا رہا ہے۔ علم بانٹنے والوں سے سوال کرتا ہوں کہ ایک لمحے کو ٹھہریے، ہم سے کچھ کوتاہی ہو گئی ہے۔
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر جو بھی دیوار اٹھاو گے کج ہو گی ۔۔
عالی وقار
ہمارا معاشرہ مسلسل انحطاط کے سفر پر ہے، میرے بولنے سے اس تنزلی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔لیکن میری خواہش ہے میری آواز سننے والا ایک لمحے کو ٹھہرے اور سوچے۔۔کہ وہ چھاوں جو اس کے آس پاس ہے اس میں کوئی سکھ بھی ہے کہ نہیں، وہ صحبت اور ماحول جو اس نے اپنے اردگرد بانٹا ہے اس میں عافیت ہے بھی کہ نہیں،
وہ شاہین بچہ جسے نگاہ بلند سخن دلنواز ہونا تھا، ابھی جان پرسوز بنا ہے کہ نہیں، وہ جس کی خودی کو سربلند ہونا تھا ابھی اپنی تقدیر کاکاتب بنا کہ نہیں، جس کا لہو جھپٹنے اور پلٹنے سے گرم رہتا تھا کیا اب بھی اس کی نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے ہیں کہ نہیں، ۔۔۔چلیے چھوڑیئے نتائج کی بات چھوڑئے، کیا ایسا ماحول بنادیا گیا ہے، کیا ایسی صحبت سجادی گئی ہے جس میں کوئی بچہ شاہیں کے تصور شاہین پر پورا اترنے کی سعی کر سکے ، وہ کیا خواب تھا جو شاعر مشرق نے پیش کیا، اور کیا اتنے سالوں بعد اس کی تعبیر پالی گئی۔۔کیااس نظام تعلیم نے ہماری اخلاقیات کی اقدار کو دوام بخشا، کیا مدرسے سے نکلا طالب علم ایک بہتر انسان بن گیا، کیا کوئی معیار ہے جس پر ہم خود کو پرکھ سکیں۔۔دین کے معیار احسن مگر سخت، کیا معاشرت کے کسی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے کہ ہم نے اب بہتر انسان پیدا کرنے شروع کر دیے۔ حضور والا، اس سنگ مرمر جو آپ تراشیں گے میں وہی بنوں گا،
میں ہوں وہ سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دنیا
یا پتھرائی ہوئی آنکھ جا نیلا پتھر جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
ایک انصاف کا پتھر بھی ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہے اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں۔
مجھے دھڑکنے عطا کرنے والو ناخداو آج میں تم سے مخاطب ہو ، کہ میرے ماحول میں مقابلہ نہیں ہار کو سینے سے لگانے کا ہنر عطا کر دیجئے، کہ تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے ، دل مرتضی سوز صدیق دے، کہ پھر وہی تیر سینے کے پار کر ، تمنا کو سینوں میں بیدار کر ،
کہ بھجی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں