بجلی کے بغیر زندگی


بجلی کے بغیر زندگی
اشارہء ابرو پر ہماری زندگی میں اندھیرے بانٹنے والے اپنے محلوں میں بےخبر سوتے ہیں، انہیں کیا خبر کے کس کے سکول کا کام ابھی ادھورا تھا، اور کس کی ہنڈیا ابھی چولہے پر دھری ہے،
کون گیس کی کمیابی سے ابھی اپنے کمروں میں ٹھٹرا جا رہا ہے۔۔آج اپنے آبائی شہر چیچہ وطنی میں ہوں تقریبا 2 بجے آیا تھا اور اب رات کا ایک بجنے والا ہے اور اس دوران ابھی تک دو گھنٹے سے زیادہ تک پجلی میسر نہیں ہوئی، شام تک گیس بھی ندارند تھی لیکن ابھی اس وقت گیس موجود ہے۔۔اس بجلی کے انتظار سے پر زندگی کے بارے سوچتا ہوں۔ایک محرومی جو میرے ملک کے حکمرانوں نے بانٹی ہے، ایسی تکلیف جس کی چھبن ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے.
شاعر سے معذرت کیساتھ
کوئی تعویذ دو ردِ بلا کا
لوڈ شیڈنگ میرے پیچھے پڑ گئی ہے
صبح کے نو بجے سے دوپہر کے تین کے درمیان بجلی دو گھنٹوں کےلئے میسر آئی ہے ، اس سے پہلے کے پھر غائب ہو جائے ، لیپ ٹاپ کو چارجنگ پر لگا دیا ہے ، جانے کب تک ساتھ دے گی کب چلی جائے گی اس کی ادا تو کسی ستم پیشہ ڈومنی کی سی ہے۔۔کل سے آج تک گھر سے باہر ہی نہیں نکلا کہ کپڑے استری کرنے کے لئے اس خاص وقت کا فائدہ نہیں اٹھا پایا جب بجلی دیوی آئی تھی۔ اب تھوڑی لیپ ٹاپ چارجنگ کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اپنی کہانی کہنے کے قابل ہو گیا ہوں۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ ظالم جادوگرنی شہر کے لوگوں پر اپنا قبضہ جما چکی ہے ہر کوئی اس سے نالاں تو ہے لیکن برملا گلہ کرنے سے خوفزدہ ہے۔۔یہ مسکرائے ، ذرا دیر کو آئے تو سارے برتن پانی سے بھر لیتے ہیں نہ آئے تو آنکھوں میں انتظار کے اندھے خواب بسائے بس انتظار کرتے جاتے ہیں۔شہر کا شہر پتھر ہو چکا ہے، مجھے یاد ہے جب پندرہ سال پہلے اسی شہر کہ اسی محلے میں بجلی چلی جاتی تھی تو سارے لوگ ہماری گلی کی نکڑ پر اکھٹے ہو جاتے ۔۔جن کے گھر فون ہوتا وہ واپڈا والوں کو فون کرتا اور باقی لوگ بجلی کے اس رویے کی شکایت لئے ایک دائرہ سا بنا لئے کرتے ۔۔۔رات گلی کی نکڑ ویران پڑی تھی ، کوئی اکھٹا نہ ہوا، کسی نے بجلی کے افسوس کے دائرہ نہ بنایا، اور مجھے گمان ہے کی کسے نے واپڈہ کو فون بھی نہ کیا ہو گا۔۔شاید لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ ذیادہ گلہ شکوہ ہی بجلی دیوی کی ناراضگی کا باعث ہے۔
ڈنمارک میں احباب سوچتے ہوں گے کہ ہم نے یکسر انہیں بھلا دیا ہے اور جا کر اطلاع بھی نہیں دیا تو عرض ہے ایک فون تھا جس پر چارجنگ کی مہربانی نہ ہو سکی، انٹر نیٹ نامی جادو کی چھڑی میسر نہ آ سکی اس لیے چند الفاظ لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آیئں۔
 تیسرے دن کا اختتام ہے اور ابھی تک کہانی نامکمل ہے۔۔۔ابھی اور باتیں ہیں جن پر ذہن الجھا ہوا ہے۔۔۔جب بھی سڑک پر نکلتا ہوں بے ہنگم ٹریفک دل کو دکھاتی ہے، گھر آتا ہوں تو لوڈشیڈنگ دل کے دیپ بجھاتی ہے۔۔۔۔گیس کی عدم دستیابی ، سی این جی کی بندش، ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔۔۔ایسے زخم ہیں جو اب رسنے لگے ہیں۔۔۔ارباب اختیار اگر چاہیں تو چھتیس کروڑ چوبیس گھنٹوں میں بانٹ سکتے ہیں ، بیسویں ترمیم بیس دنوں سے پہلے منظور کروا سکتے ہیں لیکن یہ بھیڑ بکریوں کے مسائل کون حل کرے گا ، ان کی منمناہٹ اور بھیں بھیں اب کون سنتا ہے۔۔۔۔
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں