تیرے عشق نچایا-یادِ بجلی


تیری یاد آئی تیری یاد
آج پھر روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا،۔۔۔۔یا پھر شوکت فہمی نے کہا تھا ۔۔۔۔کچھ اس لئے بھی ساون سے وحشت ہے مجھ کو ۔۔۔یہ دل میں یاد کی بیلیں اگانے لگتا ہے۔۔ایسے ہی آج فیصل آباد کی استعمال شدہ موٹرز اور جنریٹرز کے بازار میں بجلی کی بہت یاد ائی۔۔۔۔وہ حسینہ جس سے یادوں کے شیش محل آباد تھے بس ایک یاد بن کر رہ گئی ہے۔۔۔۔وہ نارنین جو میرے بام و در کا اجالا تھی، جس کی موجودگی دھڑکن کی طرح زندگی کا احساس تھی، جو سردیوں کی چھاوں اور گرمیوں کی دھوپ تھی۔۔۔۔شاید اسی کے لئے محسن نقوی نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔یا پھر جگجیت نے جس کو گایا ہے۔۔۔۔آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو۔۔۔۔۔۔یہ پھر پڑوسی ملک کی کسی فلم میں کسی نے اس کو اس طرح سے پکارا تھا۔۔۔۔
حد سے زیادہ آتی ہے میری جاں مجھ کو تیری یاد
اک تیرے جانے سے پہلے اک تیرے جانے کے بعد
ہزاروں تشبہات اور استعارے اس کے جوبن پر نثار، جو جھلک دکھا کر چھپ جاتی ہے۔۔۔۔
نازکی اس کی کیا کہیے۔۔۔۔
یہ سچ ہے تم میری زندگی ہو
زندگی کا مگر بھروسا کیا
کبھی گھبراوں کبھی ڈر جاوں کیا تو نے کیا جادو
تیرے وعدے پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
تیری زلف کے سب اسیر ہوئے

جیسے کسی بھوکے سے پوچھا کہ یہ چاند تارے کس لئے ہیں تو اس نے کہا تھا ۔۔۔کون سے چاند تارے ۔۔۔مجھ کو نظر آتی ہیں روٹیاں۔۔۔۔۔تو ایسی ہی بھوک اور مخبوط الحواسی مجھ پر تاری ہے جو مجھے ہر شاعر کے محبوب کی ہر ادا میں بجلی کی اداکاری کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔بابو جی ذرا دھیرے چلو بجلی کھڑی یہاں بجلی کھڑی۔۔۔۔یا انگ انگ میں ہی بجلی بھری وغیرہ قسم کے گانے گا کر لوگوں نے بجلی سے محبت کا اظہار تو کیا ہے لیکن جو مقام اس زہرہ جبیں کا ہونا چاہیے تھا اسے وہ مقام نہیں ملا۔۔۔۔۔آپ غور کیجئے اردو ادب میں محبوب سے منسوب بیشتر خوبیاں بجلی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔۔۔
بے اعتبار ہے۔۔۔۔۔۔
ہاتھ نہیں آتی۔۔۔۔۔
نزاکت اور سرعت میں ثانی نہیں رکھتی
ہر جائی ہے۔۔۔۔
دل اور آنکھوں کی روشنی ہے
دل چاہتا ہے ہمیشہ پاس ہو۔۔۔
چلی جائے تو داغِ جدائی دے جائے۔۔
جس کی آمد کا شدت سے انتظار ہو۔۔
جس کے مزاج کا عاشق اندازہ نہ کر سکیں۔۔۔۔
لیکن پھر بھی ابھی تک اس کے لئے الگ سے کسی صنف کا آغاز نہیں کیا گیا۔۔۔ویسے تو اس کے کچھ مضامین غزل، نوحے، واسوخت وغیرہ میں سموئے جا سکتے ہیں لیکن پھر بھی اس موضوع کی وسعت کے پیشِ نظر دوستوں کو سوچنا ہو گا۔۔۔۔۔کہ بجلی سے وابستہ دکھ درد کو قلم بند کرنے کے لئے کس صنف کا سہارا لیا جائے۔۔۔۔۔لوڈشیڈنگ کی شدت اس بات کی متقاضی ہے کہ بجلی کو ہمارے ادب میں مناسب مقام دیا جائے اور ہو سکے مقامی سطح پر انجمنِ ترقیء بجلی قسم کی تنظیمات کو فروغ دیا جائے۔۔۔۔جس میں بجلی کے ادب پر اثرات کا مکمل جائزہ لیا جائے۔۔۔۔۔جیسے غالب کا مشہورَِ زمانہ شعر بذبانِ یو پی ایس کچھ ایسے ہو گا ۔۔۔۔
روشنی کے تم ہی نہیں ہو منبع یو پی ایس
کہتے ہیں اگلے زمانے میں بجلی بھی تھی
یا پھر
لوڈشیڈنگ مجھ سے کہتی ہے
ارے وہ تو بجلی تھی جو نہیں آئی ۔۔۔میرے لفظوں کو ذلیل کس نے کیا ہے۔۔۔
یا پھر
میں نہیں بول دی میرے وچ لوڈ شیڈنگ بولدی
یا پھر
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا، تھیا۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں