شالا کوئی پردیسی نہ تھیوے۔۔۔۔۔۔

دو راستے ہیں میرے سامنے۔۔۔۔ہمیشہ دو راستے ہوتے ہیں۔۔۔نجانے ایسا کیوں ہے کہ اکثر خود کو دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا ہوں۔۔۔بہت سالوں سے اس کشمکش کا شکار ہوں کہ کیا کروں۔۔نوکری ملتی ہے تو ایک نہیں دو دو۔۔۔بھلا کس کو چھوڑوں اور کس کو رکھوں۔۔۔ایک کو رکھتا ہوں تو لگتا ہے جسے چھوڑا تھا اس میں بہتر تھا۔۔۔دل کسی بات پر ٹھہرتا ہی نہیں۔۔۔۔۔دیس میں تھا تو پردیس کے خواب دیکھتا تھا اور اب پردیس میں ہوں تو دیس کی یاد ستاتی ہے۔۔۔نوکری کرتا ہوں تو کاروبار کی سوچیں سوچتا ہوں اور نوکری چھوڑ چھاڑ کر کاروبار کاآغاز کرتا ہوں تو نوکری اچھی لگنے لگتی ہے۔۔۔۔اپنی اس بےکلی کا کوئی جواز نہیں میرے پاس۔۔۔۔ایک وقت آیا تھا جب پی ایچ ڈی اور نوکری آمنے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔۔۔۔بس ان دونوں سے الجھتا رہا۔۔۔نہ نوکری کی نہ پی  ایچ ڈی۔۔۔۔۔
فیض صاحب تو عشق اور کام سے الجھتے رہے تھے اور دونوں کو ادھورا چھوڑ کر چلتے بنے۔۔۔لیکن افسوس عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔۔۔یہاں بس کام سے کاہلی الجھی رہتی ہے۔۔۔کچھ نہ کرنے کا جنون کچھ نہ کچھ کرنے سے الجھا رہتا ہے۔۔۔دو چار ماہ کسی کام میں گذرے نہیں کہ دل بھرا نہیں۔۔۔۔۔پچھلے سال سب چھوڑ چھاڑ پاکستان جا بسا تھا۔۔۔اونے پونے گھر کا سامان بیچا۔۔۔۔کار کچھ اس طرح بیچی کے خریدنے والے کے نام ہونے کا بھی انتظار نہ کیا۔۔۔پاکستان جاکر ایسا مصروف ہوا کہ جیسے واپس پردیس کبھی نہ آنا ہو۔۔۔بس بجلی کی بندش۔۔۔گیس کا گھن چکر،ٹریفک کا شور ایسا دل کو لگا کہ واپس بھاگ آیا۔۔۔۔تین ماہ گذارے پھر وہ گلیاں یاد آنے لگیں۔۔۔جہاں ہنسی تیری سن سن کے فصل پکا کرتی تھی۔۔۔پھر پندرہ دن کو ایک چکر لگا آئے جو کچھ جمع جتھا تھا لٹا آئے ۔۔۔۔اب تین مہنے پورے ہو چلے ہیں۔۔۔۔آج پھر کسی دوست نے لیلائے وطن کا ذکر چھیڑا۔۔تو پھر دل بے تاب پردیس سے بیزار ہوا پھرتا ہے۔۔۔۔
پھر دل طواف کوئے ملامت کو جائے ہے۔۔۔پھر کاروبار کے خواب، مٹی کی محبت۔۔۔وہ سارے دوست جنہوں نے کبھی ہمارا پوچھا تک نہیں یاد آگئے ہیں۔۔۔۔
زندگی اب ڈھلوان اترنے لگی ہے۔۔۔اب ہر زخم گہرا لگتا ہے، ہر درد میں ٹیس بڑھ گئی ہے۔۔۔دانت کا درد ہو تو آنکھ نہیں لگتی۔۔۔سر کا درد برداشت سے باہر ہو جاتا ہے۔۔۔۔ابھی اس عمر میں بھی کوئی ایک راستہ سجھائی کیوں نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید انہی راستوں میں اپنی زندگی ہے۔۔۔۔۔وہ جو عماد اظہر عماد نے کہا تھا
اس لئے حالتِ مسمار میں رکھی ہوئی ہے
زندگی شاخ نے دیوار میں رکھی ہوئی ہے۔۔۔
شاید انہی دوراہوں میں رہنا ہے۔۔۔دیس میں دیس کے مسائل سے بھاگنا اور پردیس میں دیس کے لئے تڑپتے رہنا۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں