کرپشن کہانی ۔۔۔۔۔بنا عجب اورغضب کے۔۔۔۔۔۔۔

کرپشن ترقی پذیر ملکوں میں ہر ادارے کی کہانی ہے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال، رشوت ستانی، سرکاری لین دین میں گھپلا، کمیشن خوری، سب کرپشن نامی بلا کے بچے ہیں۔ پچھلے سالوں میں کتنے پل اور سڑکیں اپنی معیاد پوری کرنے سے پہلے اپنی شکل کھو بیٹھے، کتنے منصوبے صرف کاغذوں میں تعمیر ہوئے، کتنے غریبوں کی پوشاکیں صرف اندراج میں درج ہوئیں اور کتنی جھونپڑیاں فقط نقشوں میں مکان بنیں، کتنے لوگوں کی بھوک  صرف تقاریر میں مٹائی گئی۔۔۔۔ وگرنہ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی کوششوں سے کسی کی زندگی میں بھی کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔
مجھے ذاتی طور پر سرکاری ملازمت کرنے کا اعزاز حاصل ہے،اسی لئے سفارشی لوگوں کی بھرتی، سفارش پر مراعات، سرکاری اشیئا کا بے دریغ استعمال، کام چوری، خانہ پری، اس قسم کی اشیا کو بہت قریب سے دیکھنے کا دعوی کر سکتا ہوں۔۔۔
ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے ان کے گاوں کے ڈیرے کا پتہ لوگ یوں بتاتے تھے کہ بڑا سا گیٹ ہے جس کے باہر ہتھکڑی لٹکی ہوئی ہے۔ اصل چکر یہ تھا کہ موصوف کے بڑے بھائی کسی تھانے میں محرر تھے تو انہوں نے سوچا کہ تالہ خریدنے پر پیسے خرچ کیونکر کئے جائیں؟  سو انہوں نے گیٹ کو ہتھکڑی لگانا ہی مناسب سمجھا۔
سرکاری گاڑیوں میں بچوں کو ڈھونا، دفتر کے نوکروں سے اپنے گھروں کے کام کروانا، دفتری سٹشنری کو بچوں کے رف ورک کے لئے بھجوانا تو بہت عام سی باتیں ہیں جن سے بچنے والے کوئی پانچ دس فیصد ہی ہو سکتے ہیں۔
آپ بہت سے سرکاری دفتروں میں اشئا کی خریداری کا طریقہ کار ملاحظہ کریں آپ کو احساس ہو گا کہ ایک پورا مافیہ ہے جو ایک متوازن بنک اور سود کا نظام چلائے پھر رہا ہے۔ مجھے اپنے سرکاری دفتر کے لئے ایک  چند چیزوں کی ضرورت تھی ، میں نے کلرک سے کہا، اس نے کہا ایک درخواست لکھئے اور بڑے صاحب سے منظوری لے آئیے، یا ٹھیکدار سے منگوا لیں وہ ساری کاغذی کاروائی خود ہی کر لے گا، پوچھا کہ یہ ٹھیکدار کون ہے انہوں نے بتایا کہ ابھی ملوائے دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ایک صاحب بغل میں ایک بریف کیس دبائے آ موجود ہوئے، جناب کیا کیا چاہیے، بتا دیں کل آ موجود ہو گا، اتنی تیز سروس اور وہ بھی سرکاری دفتر میں کچھ یقین نہ آیا ، معاملہ ٹٹولہ تو پتہ چلا کہ صاحب یہ تو کمیشن ایجینٹ ہیں۔ دو سو روپے کی ڈور بیل چھ سات سو میں ہم تک آ جائے گی۔ کچھ  بیس تیس فیصد ان کا کمیشن ہو گا، کچھ ایک فیصد اے جی آفس کا ، کچھ چائے پانی آفس کے کلرکوں کا۔۔۔۔آپ ٹھیکدار کے بغیر کچھ منگوانے کی کوشش کر کے دیکھ لیں آپ تو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔ ابھی پچھلے سال کسی سٹوڈنٹ کی ریسرچ کے لئے کچھ کیمکلز پاکستان بھجوائے، پہلے تو اس کو لاہور پورٹ پر روک لیا گیا کہ اس پر ڈیوٹی لگے گی، ، ڈیوٹی بھی اتنی کہ اصل قیمت سے بھی زیادہ ، پھر کسی مہربان دوست سے رابطہ کیا انہوں نے کسی سے کہا کہلوایا، یونیورسٹی سے ایک خظ بنوایا کہ یہ ریسرچ کے لئے استعمال ہو گا، حالانکہ کیمکلز پر لکھے گئے ایڈریس پر ڈیپارٹمنٹ کے ایڈریس سے بھی اخذ کیا جا سکتا تھا۔۔۔خیر جب ان کیمکلز کے پیسے وصول کرنے کا وقت آیا تو وہ کلرک جو ٹھیکداروں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں انہوں نے ایسی  قانونی مین میخ نکالی کہ ایک دفعہ تو لگا کہ ہمارے پیسے ڈوب گئے۔ خیر اس چھوٹی سی کاوش میں ہم نے حکومت پاکستان کو کم و بیش ایک آدھ لاکھ روپے کا نفع پہنچوایا۔ کیونکہ جو چیز بھی آپ ٹھیکدار کے توسط سے لیں گے وہ اپنا حصہ اور اپنے مافیا کا حصہ اس میں رکھ کر آپ کو قیمت بتائے گا۔
چلئے سرکاری دفاتر سے ہٹ کر کوئی اور مثال لے لیتے ہیں۔ جیسے کتابیں چھاپنے والے کبھی مصنف کو پورے پیسے نہیں دیں گے۔ میں نے ملتان کے ایک مشہور بک ڈپو کو اپنا سٹاکسٹ بنایا جبکہ پبلشر میں خود تھا ، جب کتابیں چھپیں تو ان سے تین سو کتابیں دوستوں کو بانٹنے اور اپنی یونیورسٹی میں دینے کے لئے لے لیں، دو سال کے بعد میں نے ان سے پیسوں کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا صرف دو تین سو کتابیں بکی ہیں۔ مجھے یہ بات ہضم نہ ہوئی ۔ سٹاکسٹ سے کچھ تو تکرار ہوئی ۔ معاملہ پولیس تک لیکر گئے۔ ان کی دکان سے تیرا سو کتابیں ملیں۔ یعنی ایک ہزار کا ایڈیشن چھپا، دو تین  سوبکیں، تین سو میں نے شروع میں وصول کر لیں۔ اور تیرہ سو پھر بھی باقی۔ یعنی اگر کتاب بکنے والی ہے تو اضافی کتابیں چھاپ کر بیچتے رہتے ہیں اور مصنف جب بھی پوچھتا ہے اس کو یہی جواب ملتا ہے کہ کتاب بکی ہی نہیں۔ انہیں کرم فرماوں کی کاوشوں سے آپ کو پاکستان کے اہل ہنر آشفتہ حال نظر ائیں گے۔
کھانے پینے کی اشیا میں کرپشن تو ایک الگ کتاب کی متقاضی ہے، آپ روزمرہ کے کسی کام اور کسی شعبہ کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کسی نہ کسی صورت کرپشن نظر آ ئے گی۔
اب نجانے یہ قطرہ قطرہ نیچے آ جانے والا اثر ہے جو ہمارے سیاستدانوں سے عوام میں آیا ہے، یا ہماری چالو عوام نے اپنے سے بہتر چالباز لیڈر منتخب کئے ہیں۔
سنا ہے پی پی کی حکومت نے اپنے دور سلطانی کے آخری سال میں سی این جی کی لوٹ سیل میں اتنے پرمٹ بانٹے ہین کہ آنے والے کئی الیکشنوں کے پیسے بھی پورے کر لئے؟
بے نظیر اور نواز شریف کی کرپشن کی کہانیوں نے تو عالمگیر شہرت پائی۔ آب اب بھی گوگل کر کے ان کے کارہائے نمایاں کی تفصیلات حاصل کر سکتے ہیں۔ روزانہ درجنوں قسم کے واقعات کرپشن کے سکینڈلز سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں کم ہی کوئی کاروبار ہو گا جو جھوٹ کی آمیزش اور کرپشن سے پاک ہوگا۔ بحریہ ٹاون کے سربراہ کی گفتگو آپ نے سن رکھی ہو گی کہ آپ پاکستان میں رشوت کے بغیر کوئی کاروبار کر کے دکھائیں حرف بہ حرف حقیقت ہے۔ فائلوں کو پہیے لگانے والی باتیں فقط کہانیاں نہیں۔۔۔۔ستم تو یہ ہے کہ آپ  کو زندگی کی پہلی نوکری کی پہلی کمائی لینے کے لئے بھی مٹھائی نام کی رشوت دینی پڑتی ہے۔ ہسپتال میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو نرس مبارکباد سے بلیک میل کرتی ہے ، جانوروں کی منڈی میں پرانے گھاگ بیوپاری آپ کے ساتھ گئے ایکسپرٹ کو باتوں باتوں میں سمجھا دیتے ہیں کہ مال بکنے دو تمہیں تمہارا کمیشن ملے گا۔
جس کا ہاتھ جہاں تک پہنچتا ہے وہ اس حد تک مال سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ سول سروس میں جانے والے دوست بتاتے ہیں کہ افسران کھلم کھلا اپنے حصے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور خواہش نہ پوری کرنے پر آپ کی فائل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک پورا دائرہ ہے جو عام آدمی سے لیکر ملک کے سربراہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ حقیقت پسند سیاسیتدان کا تاریخی فقرہ آپ کو یاد ہو گا کہ کیا کرپشن پہ ہمارا حق نہیں۔ تو جہاں لوگ کر پشن حق سمجھ کر کرنے لگیں۔ جہاں لوگوں کو لگتا ہو کہ اگر وہ سفارش نہیں ڈھونڈیں گے تو اپنے جائز حق سے بھی محروم کر دئے جائیں گے۔ وہاں تھوڑی بہت کرپشن بنام ساڈا حق کتنی نا جائز ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن کسی بھی معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے اور خصوصا ہمارے ایسے معاشرے کے لئے جو اسلام کے نام پر استوار ہو۔ جہاں رشوت لینے اور دینے والے کے لئے جہنم کی وعید ہو ۔ ۔۔ستم یہ کہ ایمانداری کا مذاق اڑنے لگا ہے، جو اس روش سے بچ کر چلتا ہے لوگ اسے خبطی اور پاگل گردانتے ہیں۔ ہم چڑھتے ہوئے سورج کے پوجاری جب تک اپنا قبلہ تبدیل نہ کریں گے تب تک اس کرپشن کے نظام سے ایک سے بڑھ کر ایک سورما پیدا ہوتا رہے گا۔ ایمانداری کی قدر کرنا سیکھنا ہو گی، سچے کو سلام اور قدر ومنزلت سے نوازنا ہوگا۔۔۔۔عزت اور تکریم کا معیار پرکھنا ہوگا۔
سنا ہے کچھ کاروائی کا آغاز ہوا ہے، گیلانی صاحب، ڈاکٹر عاصم اور کچھ اور بڑے ناموں کے گرد دائیرہ کھنچ گیا ہے۔ ۔۔کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کوئی انتقامی کاروائی نہ ہو۔۔۔۔اور ملک میں کرپشن کے خاتمے کا آغاز ہو۔ کچھ پرانے فوجیوں کی کرپشن پر ہاتھ ڈلنے جو سلسلہ آغاز ہوا ہے خدا کرے یہ تلوار برسر اقتدار لوگوں کے سر پر بھی لٹکنے لگے۔۔۔اور اگر ان بڑی مچھلیوں پر ہاتھ پڑا تو چھوٹی موٹی کرپشن والے خود بخود سہم جائیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں