کیا لکھنے والوں کے دن بھی بدلیں گے ؟؟

ابھی ایک اشتہار پر سے نظر گذری ، جو ایک شاعری کی نئی مطبوعہ کتاب کے بارے میں تھا، کتاب کا نام تھا بے رنگ لہو، شاعر کا نام محمد اعظم بابر، اشاعت اگست پندرہ ، ناشر بک کارنر جہلم اور ملنے کا پتہ صوفی چاٹ اینڈ دہی بھلےالبیگ پلازہ، ویلج ایڈ، جی ٹی روڈ لالہ موسی۔ ۔۔شاعر کے چند اشعار بھی اسی اشتہار پر درج تھے ، ان میں سے ایک کچھ یوں تھا
پوچھ میرے پیروں کے آبلوں سے
منزل تک پہنچنے میں کتنے زمانے لگے

ہو سکتا ہے کہ شاعر کو صوفی دہی بھلے فروٹ چارٹ سے بہتر کوئی سخن فہم کتاب بیچنے والا نہ ملا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے اس پھلدار کاروبار کا مالک شاعر خود آپ ہو۔
برصغیر کے اہل ہنر کی آشفتہ حالی اور آبلہ پائی کچھ نئی نہیں، قرض کی مئے کی عیاشی تو خیر کسی کسی کو میسر تھی، یہاں تو ضروریات زندگی اور ادویات کے لئے بھی بڑے بڑے نام امیر وقت کی چوکھٹ پر سرنگوں پائے گئے ہیں۔۔۔کیا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب میرے ملک میں لکھنے والوں کا معیار زندگی بلند ہو پائے گا۔ فیصل آباد کا ناولسٹ جو زندگی کرنے کے لئے رکشہ چلاتا ہے اور فیصل آباد کے نواح کا ایک موچی جو کئی کتابوں کا مصنف ہے۔۔۔یہ خبریں ابھی بالکل تازہ ہیں، کیا اتنی کتابوں کے بعد ان کے مستقبل کا ستارہ جگمگا نہیں جانا چاہیے تھا؟ کیا بارہ کتابوں کے خالق کی زندگی میں کچھ بہتری آ نہیں جانی چاہیے تھی؟ مگر جہاں الفاظ کوڑیوں کے مول بک جائیں، جہاں جذبات کی قدروقیمت کا پھل صرف بیوپاری کی جھولی میں گرے وہاں لکھنے والے اور فنکار کی زندگی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔۔
آج سے تیرہ سال پہلے میں اپنی پہلی کتاب کا مسودہ اٹھائے اردو بازار لاہور کی گلیاں چھان رہا تھا۔۔۔یہ کتاب زراعت کے مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لئے ترتیب دی گئی تھی اور  اس قسم کی کوئی دوسری کتاب مارکیٹ میں موجود نہ تھی۔ کچھ احباب کی مدد سے کتاب کا مواد اکٹھا کیا گیا۔ کمپوز کیا گیا گیا۔ اور چھپوانے کے لئے کسی پبلشر کی تلاش ہوئی ۔۔۔
ہر بازار کی طرح اردو بازار میں بھی خالصتا تاجر ہی بستے ہیں۔ ایک دو نے اس مسودے کو ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ اور ایک دو نے کچھ اعزازی کتابوں کے عوض اس کو چھاپنے کا عندیہ دیا۔۔۔اور جس مہربان پبلشر نے اس مسودہ کی سب سے زیادہ قیمت لگائی وہ پچاس روپے فی صفحہ تھی۔ کتاب کے چار سو صفحات کی کل قیمت 20،000 روپے بنتی تھی۔ جو وہ مجھے یک مشت ادا کرنے کی آفر کر رہے تھے ۔ اس کے بعد وہ جانیں اور کتاب۔
اپنی محنت کے ساتھ ایسے سلوک پر میرا دل کھول اٹھا۔ یہ چار سوصفحات کیونکہ سوال و جواب کی صورت میں کمپوز ہوئے تھے ۔۔۔یعنی ایک سوال اور جواب میں چار مختلف آپشنز جن میں ایک درست ہوا کرتا ہے، اس لئے اس کا اصل مسودہ اٹھارہ سو صفحات پر پر کمپوز ہوا تھا، بعد میں کتاب کے صفحات کی ترتیب میں ہر صفحہ پر سوال و جواب کی تعداد بڑھا کر اس کے صفحات کم کئے تھے۔ تیرہ سال پہلے کمپوزرز آج سے زیادہ مصروف اور مہنگے ہوتے تھے، کیونکہ  کمپیوٹر ہر شخص کا ذاتی نہ ہوتا تھا۔ اور ہم ایسے طالب علم تو بس انہیں دور سے ہی دیکھتے تھے۔ اور ہاں مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کے کمپوزنگ والے دکاندار سی ڈی پر میڑیل لینے کے بھی روپے چارج کیا کرتے تھے۔ ان حالات میں کمپوزڈ ہوئی کتاب کی اتنی کم قیمت سن کر میں لاہور کے اس مشہور پبلشر کے چوبارے سے میز پر دھری استقبالی چائے بھی چھوڑ کر چلا آیا۔
من پر ایک دھن سوار تھی کہ اس کتاب کو چھاپنا ہے اور ایک ماہ کے اندر چھاپنا ہے تاکہ امتحانات سے پہلے پہلے آ جائے۔کچھ کتاب چھپوانے  کی قیمت کے تخمینے لگوائے گئے اور سوچا گیا کہ اس کتاب کو خود ہی چھاپ لیا جائے۔ ایک کتاب کی چھپوائی پچیس سے تیس روپے میں پڑ رہی تھی ، یعنی پچیس سے تیس ہزار روپیہ ہی درکار تھا۔۔۔دوستوں اور بڑے بھائیوں سے ادھار لیکر اس کا پہلا ایڈیش چھاپا اور خدا تعالی کا شکر ہے کتاب کا رسپانس بہت اچھا تھا، ایک ماہ کے اندر دوستوں کا قرض اتار دیا۔ کتاب چل نکلی۔۔۔اور اب تک اس کے چھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اگر آپ کے پاس انوسٹ کرنے کو کچھ روپے ہوں اور لگتا ہو کہ آپ کی کتاب بک سکتی ہے تو بیچنے والے کو چالیس فیصد کمیشن دے کر بھی آپ کو مناسب منافع مل سکتا ہے۔وہ کتاب جس کا مسودہ بیس ہزار روپے قیمت پا رہا ہے، اوسط ہر ایڈیشن پر لاکھ روپیہ منافع دیتا ہے، لیکن کیونکہ لکھنے والوں کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہوتی اس لئے وہ پبلشر کے ہاتھوں لٹنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ہمارے اکثر پبلشرز مصنفین کا جائز حق دینے سے بھی کتراتے ہیں۔ کتاب بکنے والی ہو  اور مصنف اس کے حقوق بیچنے پر تیار نہ ہو تو رائلٹی کے نام پر پندرہ سے بیس فیصد پر گھیر لیتے ہیں، یعنی ایک ایڈیشن پر پندرہ سے بیس ہزار روپے مصنف کو ملیں گے۔۔۔ اورایسے معامالات میں چپکے سے  ایڈیشن کی تعداد اضافہ کردیتے ہیں۔ جیسے پندرہ سو کتابوں کا ایڈیشن چھاپ لیا۔ اور مصنف کو بتایا کہ ہزار کتابوں کا ایڈیشن ہے۔
اگر کسی نہ کسی طرح آپ ان کے چنگل میں پھنسے کو تیار نہیں، اور آپ چاہتے ہیں کہ خود سے پبلشر ہوں اور آپ کو کتاب بیچنے میں مدد مل جائے تو کتاب بیچنے کی پرسنٹیج چالیس سے پچاس فیصد پر لے جاتے ہیں۔ یعنی جو کتاب تین سو روپے میں بکے کی وہ بیچنے والے کو ایک سوبیس سے لیکر ڈیڑھ سو روپے میں ملے گی۔ اب ذرا غور کیجئے کہ کتاب چھاپنے، لکھنے والے کا حصہ ڈیڑھ سو ہے۔ اس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو اس کتاب کی اشاعت پر لگی ہے۔ اور دوسری طرف کتاب بیچنے والا کا منافع بھی ڈیڑھ سو ہے۔
قصہ مختصر دس بارہ کتابوں کی مصنف کی زندگی میں کوئی بہار آنے کی کوئی امید ہی نہیں۔ کتابوں سے آنے والی آمدنی سے گھر ، گاڑی بنانے کا خیال پاکستان ایسی سوسائٹی میں ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔
اب ایسے ہی ہمارا پرنٹ میڈیا ہے ، جو اپنے منافع میں کسی کو شریک کرنے کا روادار نہیں۔ پاکستان کے انگریزی اخبارات میں سے چند ایک اعزازیہ کے نام پر لکھنے والوں کی اشک شوئی کرتے رہے ہیں، لیکن اردو اخبارات سوائے چند بڑے ناموں کے دو چار مضامین لکھنے والوں کو کسی قسم کا معاوضہ تو درکنار اعزازیہ دینے کے بھی روادار نہیں۔
لوگ اس آرزو میں لکھتے لکھتے بوڑھے ہو جاتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا ان کے لئے زندگی کی آسائشیں خرید پائے گا۔ اور جب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو لوگ چور دروازوں کے متلاشی ہو جاتے ہیں۔ کسی سیاسی مافیا کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ اپنی سوچ، دلیل اور جذبات گروی رکھ دیتے ہیں۔ ۔۔آپ اردگرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں، خوشامدی اور درباری قسم کے لکھاری ہر حکومت کی آنکھ کا تارہ رہتے ہیں۔ سرکاری عہدوں سے بھی نوازے جاتے ہیں اور پرائیویٹ ادارے بھی ان کی تحاریر کے اچھے دام دیتے ہیں۔
پاکستان میں فری لانسر لکھنے والوں کو اگر پتہ چل  جائے کہ ہمارے ورکنگ جرنلسٹ کی اکثریت کیا تنخواہ پاتی ہے تو وہ شاید اس خیال کو ویسے ہی جھٹک دیں کہ چند ایک مضامین کے بل بوتے پر اس خشک کنوئیں سے کچھ پانی نکال پائیں گے۔ ۔۔۔
 اور ان مثالوں کے برعکس اگر دنیا میں اخبار نویسوں، اور عام لکھنے والوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو تمام کمرشل اخبارات میں اپنے لکھنے والوں کو معاوضہ ادا کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ ابھی ایک مترجم دوست اور صحافی نے بتایا کہ اسے فری لانس ترجمہ کرنے کے لئے ، یعنی ڈینش سے اردو ترجمہ کرنے کے لئے فی لفظ 15 اوورے تقریبا ساڑھے چھ روپے پاکستانی ملتے ہیں۔ یعنی ایک پندرہ سو الفاظ کے مضمون سے 10،000 ہزار پاکستانی روپیہ کم سے کم معاوضہ ہو گا۔ اسی طرح اگر اخبار کسی فری لانسر کا مضمون پسند کرتا ہے تو ایک ہزار سے پندرہ سو الفاظ کا مضمون پندرہ سو سے پچیس سو کرون یعنی بائیس ہزار پاکستانی روپے سے لیکر سنتیس ہزار روپے تک ایک مضمون کے ادا کر سکتا ہے۔
اور ہمارے لکھنے والے ایک ماہ کی قلمی مشقت کے بعد بھی اتنا معاوضہ حاصل نہیں کر پاتے۔ لوگوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے اپنے حقوق کے جنگ لڑنے سے قاصر ہیں۔ ۔۔۔
ٹی وی چینلز کے آنے سے کچھ صحافیوں کے حالات بدلے ہیں لیکن اکثریت اب بھی اتنا معاوضہ نہیں پاتی جس کی وہ حقدار ہے۔ ایسے معاشروں میں لکھنے والوں کی کتابیں جوتوں کی دکانوں پر بٹیں یا دہی بھلوں کی ریڑھیوں پر فروخت ہوں، چہ معنی دارد۔۔۔۔
یہ بلاگ ڈان نیوز پر چھپ چکا ہے۔ لنک یہ رہا انمول الفاظ کوڑیوں کے مول

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں