میری رسموں نے نفرت کی تعلیم دی ہے

میری رسموں نے نفرت کی تعلیم دی ہے‘‘
جناب صدر !
رسم ایک خود ساختہ قسم ہے جس کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت بہروپ بھرتی رہتی ہے۔رسم ایک رواج بن جا تی ہے جب ایک باپ سے بیٹے میں منتقل ہو جاتی ہے۔رسم رواج سے نکل کر زنجیر پا ہو جاتی ہے جب معاشرہ اسے مکمل طور پر اپنا لیتا ہے۔رسم ایک وعدہ بن جاتی ہے جب ہر شخص اسے نبھا نا شروع کر دے۔رسم ایک چنگل ٹھہرتی ہے جب اس کو ادا نہ کرنے والوں کو قابل نفرت گردانا جائے۔رسم ایک برائی بن جاتی ہے جب ایک معاشرہ اس کی لپیٹ میں آ جا تا ہے۔رسم بھسم کر چھوڑتی ہے جب زندہ عورت کو ’’ستی‘‘ ہو نا پڑتا ہے۔ رسم مانگ میں سندور کی بجائے چاندی بھر دیتی ہے جب چاندی اور سونے کیلئے پیسے نہ ہوں۔رسم درد میں مبتلا کر دیتی ہے جب نو زائیدہ روح کی آمد پر شگن پورے نہ ہوں۔ اور جب رسوم و رواج میں زندگی الجھ جائے تو یہی صدا آتی ہے میری رسموں نے نفرت کی تعلیم دی ہے مجھے۔ اپنے شہسواروں کو قتل کرنے والوں سے خون بہا طلب کرنا وارثوں پر واجب تھا۔ قاتلوں پہ واجب تھا خون بہا ادا کرنا ۔ واجبات کی تعمیل منصبوں پہ واجب تھی وقت کی عدالت میں۔
ایک سمت مسند تھی ایک سمت خنجر تھا
تاج زرنگار اک سمت ایک سمت لشکر تھا
(اک طرف تھی مجبوری اک طرف مقدر تھا)
طائفے پکار اُٹھے
تاج و تخت زندہ باد
سا ز و رخت زندہ باد
فتح بخت زندہ باد
خلق ہم سے کہتی ہے سارا ماجرہ لکھیں
کس نے کس طرح پایا اپنا خون بہا لکھیں
چشم نم سے شرمندہ
ہم قلم سے شرمندہ سوچتے ہیں کیا لکھیں۔
جناب صدر! رسمیں نفرت کی تعلیم دیتی ہیں۔
جب سیم وزر کا سہارا لیکرزریں ایوانوں میں شہنا ئیاں بجیں تو یتیموں اور بیو اؤں کے کالجے ہوکتے ہیں۔جب ولیموں کی چھوڑی بوٹیاں ناداروں کے پیٹ کا ایندھن بنیں تو آگ لگ ہی جاتی ہے۔جب ایک گھر بساتے دوسرا گھر گروی رکھنا پڑے تو نفرت اگ ہی آتی ہے۔جب امیر کیلئے ہر سال میں سالگرہ ہو تو غریب کا جنم دن اندھیرے میں ڈوب جائے تو نفرتیں جنم لیتی ہیں ۔کیونکہ جب امراء کے بچوں کی گود بھرائیاں ہوں تو غریبوں کے بچوں کی دہائیاں نفرت نام کا بین کرتی ہیں۔جب کسی شادی میں دودھ پلائی پر ایک لاکھ ملے اور غریب بھائی کی بہن 10ہزار کے جہیز کی متحمل نہ ہو سکے تو نفرت جنم لیتی ہے۔جب دوشیزہ کی جوانی کو پیش بندھی کے بندھن میں باندھ کر کسی نواب کی رکھیل بنا دیا جائے تو نفرتیں جنم لیتی ہیں۔جہاں اپنی ہی بہن کے وٹے میں سٹہ لگا دیا جائے تو بہن اور بھائی میں خلیجیں بن ہی جاتی ہیں۔ جب نادار کی آہ شب کی چھرلیوں پٹاخوں میں گم ہو جائے۔جب باپ کے مقدس ہاتھوں سے بیٹی کو جائیداد کے لالچ میں قرآن مجید سے بیاہ دیا جائے تو بنت حوا کے دل میں نفرتیں گھر کر تی ہیں۔جب غیر برادری کے تعصب میں بیٹیوں کو عمر بھر کنوارہ رکھا جائے تو ایک الاؤ روشن ہوتا اور اس کا دھواں آسمان دنیا پر ایک بات رقم کرتا ہے۔ رسمیں نفرت کو جنم دیتی ہیں۔جب رسم حنا میں الجھی بیگمات کی پیلی ساڑھیوں کا رنگ غریب کی بیٹی کے گالوں پر ابھر آئے تو طبیعت لہو رنگ ہو جاتی ہے۔ جب کسی بڑھاپے کے سہارے اور کسی کی سفید چادر پر دھبہ لگاکر محض شک کی بنیاد پرکاروکاری کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔بسنت کی رت ڈور کا مانجھا غریب کی رگ جاں پر لگے کسی عیاش کی بو کاٹا کی آواز کیساتھ غریب کا دل کاٹے تو نفرت جنم لیتی ہے۔
جناب صدر!
آج تو میں ایک نئی رسم کو نفرتیں عام کر تے دیکھتا ہوں جس نے مسلمانان پاکستان کو کنوئیں کا مینڈک بنا دیا ہے۔ وہ ہے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ارے پاکستان جو اسلام کا قلعہ ہے جب یہ افغانستان میں تڑپتی لاشوں کو دیکھ اپنے دروازے بند کر لے جب اسے چیچنیا کی چیختی آوازیں سنائی نہ دیں جب اسے کشمیر کی لٹتی عصمتیں نظر نہ آئیں اور جب ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر کا درس سب سے پہلے پاکستان کے نعرے میں ڈوب جائے تو نفرتیں جنم لیتی ہیں۔
سورج کو جاگنے میں ذرا دیر کیا ہوئی
چڑیوں نے آسمان کو سر پر اُٹھا لیا
بچا کر ذہن و دل نکلیں کدھر سے
کہ ہیں ہر گام پر جاہل مقابل
یہ کہہ کر دل کو سمجھا تے ہیں کب سے
رہے گا کب تلک باطل مقابل
جب جاہل کو جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی یہ توہین ہے ،رندوں کی ہتک
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے












کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں