سوشل میڈیا سے چند آوازیں گٹر والوں کے لئے

آج میں نے ایک خوفزدہ شخص کو دیکھا جس کی نگاہیں لوگوں کا سامنا کرنے سے کتراتی ہوئی لگیں، وہ بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہہ رہا تھا کہ دنیا میں پچھتر فیصد لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا گٹر ہے۔ یہاں سے منفی پراپیگنڈے پھیلائے جاتے ہیں۔ میں نےاس شخص کو پہلے کبھی نہیں دیکھا، نہ کبھی اس کی بات سنی، ہاں اس کا نام سنا ہے، جنگ گروپ کا نام کس نے نہ سن رکھا ہو گا، پاکستان کا ہر شہری اس جنگ سے واقف ہے جو روز اس کی گلیوں میں اخبار کی صورت آتی ہے۔  یہ حقیقت ہے پرنٹ میڈیا اور پھر الیکڑانک میڈیا کا کردار زبان خلق کا سا رہا، اس نے جو کہنا چاہا ، لوگوں کی زبانوں تک پہنچا دیا، اس نے جو چھاپنا چاہا وہ چھاپا، جو لوگوں سے چھپانا چاہ وہ چھپا لیا، ابھی ایک دو ماہ پہلے ہی کسی بڑے سیٹھ کی کالونی میں سٹیج گرا، لوگوں پر آفت ٹوٹی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی، پھر سوشل میڈیا کے توسط خبر کے کچھ سرے باہر آئے، عوام سرسرائی اور مین سٹریم میڈیا بھی جاگ اٹھا۔ کیا ایسا صرف پہلی بار ہوا ہے، ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ ان روایتی اخبارات نے جس کے ساتھ جو چاہا سلوک کیا، جس کو چاہا عوامی کردیا اور جس کو چاہا بدنام کردیا۔
اخبار لکھنے والے کتنے ہیں جو اپنے سیٹھ کے خلاف بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اپنے سیٹھ کی بات تو دور کی ہے ، کتنے ہیں جو اپنے پیٹی بھائیوں کی بابت کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔

سوشل میڈیا دراصل ذاتی فوج کی طرح ہے، ہر شخص اسلحہ اور باردو سے لیس ہے، آپ کسی پر حملہ کریں گے تو منہ کی کھائیں گے، جتنی شدت سے حملہ کریں گے اسی شدت کا جواب ملے گا، جس میڈیم پر حملہ کریں گے اسی میڈیم پر جواب دیا جائے گا، جس وقت حملہ کریں گے اسی وقت جواب ملے گا، رات کے پچھلے پہر چھپنے والے اخبارات اگر کسی پر شب خون مارتے تھے تو مخالف کو پتہ اگلی صبح کو چلتا، اس کا ردعمل آنے کو ایک اور رات کا انتظار کرنا پڑتا۔

سوشل میڈیا کی بیان کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ایسا میڈیم جس نے روایت کو جدت سے روشناس کروایا، ای میل، ویب سائٹ، اور سماجی راطے کی ویب سائٹس، سماجی کاروباری پلیٹ فورم سب کے سب سوشل میڈیا کی ہی صورتیں ہیں۔  ان ویب سائٹس کے آنے سے کتنے کاروبار ٹھپ ہو گئے، ڈاک کے لفافے رخصت ہوگئے، عید کارڈ ختم ہو گئے، کاروباری لین دین بدل گیا، دوستی کے انداز بدل گئے، کاروبار کے اطوار بدل گئے۔ ہر چیز آپ کی انگلی کے اشارے پر چلی آئی ، وہ جسے گلوبل ویلج کہتے ہیں دنیا وہی گاوں بن گئی۔ وہ خبر جو دیہات میں پہنچتے پہنچتے باسی ہو جاتی تھی ، یا جس کی تردید چھپنا ہوتی تھی ، اس خبر کو ایک نئی زندگی عطا ہوئی۔

اس ترقی سے سب خوش ہوئے سوائے ان کے کہ جن کے کاروبار کو نقصان پہنچا، کچھ کاروباریوں نے وقت کی اس تیزی کے ساتھ چلنے کی کوشش بھی کی، اور کچھ بس احتجاج کرتے ہوئے رہ گئے۔  ہوٹل مالکان اب بھی ائیر بی این بی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، ٹیکسی کمپنیوں کو اوبر اور کریم ایک آنکھ نہیں بھاتے، کاغذ بیچنے والوں کو ای میل کی دنیا گراں گذرتی ہے، ایسے میں روایتی اخبارات کی جان بھی نکلا چاہتی ہے۔ کئی عشرے دھومیں مچانے والے میگزین بند ہو گئے، اخبارات کی گردش کم ہونے لگی، ایسے میں خبر بیچنے والے اور اخبار کا کاروبار کرنے والے سیٹھوں کے منہ سے بھی اول فول نکلنے لگا۔ بس ایسا ہی ایک کمزور لمحہ ٹی وی پر کل دیکھا گیا۔ جب پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کا دعوی کرنے والے اخبار کا مالک اپنے مخالف میڈیم کو ایک گٹر قرار دے رہا تھا۔

یہ حقیقت اب تسلیم کی لی جانی چاہیے کہ سوشل میڈیا روایتی میڈیا کی طرح ہی طاقتور ہے، یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ سوشل میڈیا روایتی میڈیا سے زیادہ خطرناک ہے، اس کی پالیسیز کنٹرول کرنے والا، اس کے الفاظ کی کانٹ چھانٹ کرنے والا، کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی مرضی کا فیصلہ کرتا ہے، اس کی رائے کو متاثر کیا جا سکتا ہے لیکن خریدنا اتنا آسان نہیں ، کیونکہ یہاں کون سا کوئی سیٹھ بیٹھا ہے جو اپنے بیٹے کے مستقبل کے لئے کسی اور سیٹھ کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ اور ایک عرصہ تک اپنی مرضی کی آواز عوام تک پہنچانے والے روایتی میڈیا کو اب برا تو لگے گا ہی جب اس کی رائے کے مخالف عوامی آوازوں کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ ہم ایسے لکھنے والوں کو اخبار کب چھاپتا تھا، ایڈیٹر کو لکھے گئے ننانوے فیصد خظ ردی کی ٹوکری میں جایا کرتے تھے، اور اب وہی خطوط لوگوں کے فیس بک سٹیٹس بن گئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر لکھنے والے دوستوں نے روایتی میڈیا کے اس ان داتا کی اول فول پر کچھ تبصرے کئے ہیں جو پیش خدمت ہیں۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش لکھتے ہیں۔

پہلی آپشن تو یہ ہے کہ ہم میر شکیل الرحمن کے عدلیہ کے سامنے سوشل میڈیا کو گٹر قرار دینے کے بیان پر ایک سے ایک جارحانہ پوسٹ لگا کر یا تند و تیز زبان کے استعمال سے میر صاحب کی بات کو سچ ثابت کریں ...
دوسرا یہ کہ ہم یہ بات سمجھ لیں کہ مین اسٹریم میڈیا کے سیٹھ سوشل میڈیا سے کس قدر تنگ ہیں. ان کا یہ بیان سراسر جھنجلاہٹ کی علامت ہے، نیز اس بات کی کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اس سے کم تر انہیں صرف گٹر ہی نظر آیا اس لیے جھٹ سے گٹر کا نام لے دیا. یعنی انہیں بھی معلوم ہے وہ خود بھی قریب قریب وہیں کھڑے ہیں.
تیسرا یہ کہ ہم سوشل میڈیا یوزر خود بھی غور کریں کہ اگر اس میڈیم کو مؤثر کے ساتھ ساتھ "ثقہ" بھی بنانا ہے تو بہت سا کام ہمارے ذمہ بھی نکلتا ہے. زبان و لہجہ میں، سوال و جواب میں، خواہش کو خبر بنانے کے رجحان کے حوالہ سے اور سب سے بڑھ کر ..... دانستہ و غیر دانستہ طور کسی بھی مذموم پروپیگنڈہ مہم سے اجتناب کر کے.
میر شکیل کو سخت سست کہنا وقت کا ضیاع ہے. چیزوں کو بین السطور دیکھیں اور مستقبل کے حوالہ سے لائحہ عمل طے کریں. اصل کام یہ ہے۔



بلاگر ثاقب ملک نے ایک طویل مضمون لکھا ہے جس کا ٹائٹل ہی فی الوقت میر صاحب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ "صحافت کے ، ۔۔۔۔۔۔۔گٹرستان کا شہنشاہ"





اس


اس مضمون پر ان کے احباب  کے کمنٹس بھی پڑھنے لائق ہیں۔ 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں