یاد وطن


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

"یاد وطن" 


بہت دفعہ قلم اٹھاتا ہوں اور بھول جاتا ہوں کے کہانی کا آغاز کیا تھا۔ وہ سارا ماجرا کیا تھا جولکھنا تھا اور وہ کون لوگ تھے جو میرے مخاطپ تھے ۔ دیس سے باہر ہوں لیکن دیس اپنے دل میں بسا ہےکبھی لگتا ہی نہیں کہ وطن سے باہرہوں- -ـ--------- لگتا ہے کہ اس چوک کے بعد جو پہلا اشارہ ہے اس سے دائیں ہاتھہ جو پہلی گلی ہے وہیں اپنا گھر ہے- گھرکا ٹی وی، انٹرنیٹ، اخبار، اور ریڈیو سب پاکستان کی گلیوں سے جڑے ہوئے ہیں- وہی سارے سیاسی مزاکرے جو لاہور کی بیھٹکوں میں سنا کرتے تھے اسی ذائقے کے ساتھہ جلوہ گرہیں وہی مزدوری کے جھنجھٹ، کہ صبح گھر سے نکلو اور شام گھر کو لوٹو ، گھر کے مسائل، اچھی ذندگی کے آنے کے خواب، سارا کچھہ اسی تابانی سے جلوہ گر ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ پاکستان سے اتنی دور نکل آتے ہیں- ہاں جب ٹیلیفون کے بل پرپاکستان کی کالز کی رقم پڑھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ جگہ اس جگہ سے ذرا دور ہے جہاں من بسا ہے- کبھی کبھی "بے وفا" دوستوں کی یاد احساس دیلاتی ہے-اب تو اکژ ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹیاں دوستوں کے دلوں پر دیتی ہیں اور چپ چاپ پلٹ آتی ہیں پھر وہاں سے کوئی سندیسہ، کوئی ای میل، کوئی میسج یا "مس کال"بھی نہیں آتی- جب کبھی یاد کی چبھن سے بے قرار ہم فون کر لیں تو کر لیں اعلی عہدوں اور مصروف زندگی کی دوڑ جتیتے احباب ہمارے خطوں(ای میل)کا جواب بھی نہیں دیتے- ان کی مصروف زندگیوں میں تارکینِ وطن دوستوں کیلئے اب کوئی وقت نہیں رہا –شاید انہوں نے یہ طے کر لیا کہ یہ لوگ ہماری زندگی سے چلے گئے - ہماری زندگی کے بوجھ کو ائیر پورٹ کی دیوار پیچھے پھینک کر وہ اپنے فرض سے ادا ہو گئے اور اب جس ------------- دن دوبارہ ان کے دروازوں پر دستک دیں گے تو جدائی میں بیتے ایک ایک لمحے کی داستان کہہ سنائیں گے اور اگر کبھی ملاقات نہیں ہو 
گی تو وہ اپنی خاموش یک طرفہ محبت کی آگ میں جلتے جلتے اپنی اپنی زندگی گذارتے رہیں گے

کبھی کبھار تو "یاد وطن" کا سارا چہرہ پرانے دوستوں کی"دشمنیاں" کِر کرا کر دیتی ہیں اور دل بے اختیار چاہتا ہے کہ کا ہے کو جائیں وہاں لوٹ کر کیا پڑا ہے وہاں ----------- بے رحم حکمران، بے حس عوام ، بے بس نظام ------بے وفا دوست ، یہاں ایک آسرا تو یے کہ "مارا دیا رغیر میں اپنے وطن سے دور"------------------------ !

مگر حالات کی تلخی میں اگر کچھ سیکھا ہے تو عاجزی سیکھی ہے – برداشت کی حد ہے کہ اب ظبط کرنا چاہتے ہیں – ہمارے غرور اور گھمنڈ میں اب "مان" کی طاقت بھی نہیں رہی – ایک اچھی یاد کی طرح کسی خوبصورت خواب کیطرح وطن کی یادیں گدگداتی ہیں- ایک مسکراہٹ لبوں پہ کھیل جاتی ہے- ایک آنسو پلکوں کے کناروں تک آتا ہے اور پلٹ جاتا ہے- سوچتا ہوں وہ کیا خواب تھے جنہیں ڈھونڈنے نکلا ہوں وہ کیا لوگ تھے جنہیں گنوایا ہے-

وطن کے خوش قسمت لوگو! غریب الدیار لوگوں تمہیں یاد کرتے ہیں – ان کی گفتگو کی ہر تان میں تم ہو! ان کی پریشانی کا ہر تار تم سے جڑا ہے- ان کی خوشی کی ساری کرنیں تمہاری خوش بختی سے پھوٹتی ہیں محمد رمضان رفیق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں