منزل سے دل نواز ہے منزل کی جستجو

’’ منزل سے دل نواز ہے منزل کی جستجو‘‘
منزل کی بات چھوڑو کس نے پائیں منزلیں
اک سفر اچھا لگا اک ہم سفر اچھا لگا
جی ہاں جناب صدر!منزل سے دلنواز ہے منزل کی جستجو کیوں منزل مقام سکوت ہے اور راستہ مقام اضطراب اور پوشیدہ قرار میں اجل ہے کہ افکار سے متاثر قوم کس طرح منزل کو اپنی منزل قرار دے سکتی ہے یہاں تو یہ جستجو ہے کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ۔ اور جہاں تلاش ہی ایسی بے کنار ہو وہاں بے جہت رقص کرتے بگولے ہوا کی خالی ہتھیلیوں پر شفاف خوابوں کے ریشم میں لپٹا ہوا یہی پیغام رکھتے ہیں کہ منزل سے دلنواز ہے منزل کی جستجو۔ کیوں کہ سفر وسیلہ ظفر تبھی ٹھہرتا ہے جب وہ قلب و جاں میں نئی روشنی جگاتا ہے۔ قافلہ چلنے والے ہزاروں ہوتے ہیں۔ منزل پر پہنچنے والے بہت کم, جو مز ا بھیڑ میں سے رستہ بنانے میں ہے وہ چوراہا بدل لینے میں نہیں جو خوبی حالات کے جبڑوں میں ہاتھ ڈال کر نان شبینہ کی مشقت میں ہے وہ ایک لقمے اور نوالے میں نہیں جو مزا کبوتر پر جھپٹنے میں ہے وہ مزا کبوتر کے لہو میں نہیں۔ جو نشہ اپنی تلوار سے نو تلواریں توڑنے میں ہے وہ فتح میں نہیں۔ جو کیفیت سامع کا سکوت مقرر پر طاری کر تا ہے وہ انعام کے روپوں میں نہیں۔ جو چبھن سینے پر زخم کھانے میں ہے وہ مندمل ہو نے میں نہیں۔ کہ پرندے کو اڑان میں مزا ہے ۔ جری کو میدان میں مزا ہے اور جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں۔
جنابِ صدر! نشان منزل سے کہیں بہتر وہ سدِ راہ ہیں جو پیروں کے چھالے چومتے ہیں کہ منزل انسان کو غفلت میں مبتلا کر تی ہے اور راستہ آدمی کو چلنے پر مجبور کر تا ہے جو لذت جستجوئے منزل سے حاصل ہوتی ہے وہ حاصل منزل سے حاصل نہیں ہوتی ۔ راستے کی دشواری بادِ مخالف کا کام کرتی ہے اور آدمی کو اونچا اور اونچا اڑاتی ہے۔ دل نواز لمحے وہ تھے جب دو گھوڑوں اور چند تلواروں والے ہزاروں کے مقابل آ نکلے تھے۔ دل نواز لمحے وہ تھے جب بے سرو سامان مہاجرین کو انصار نے بھائی بنا کر سینے سے لگا یا تھا۔ دل نواز لمحے وہ تھے جب نبی ؐ کی تلوار کا حق ادا کرنے کو ابود جانہ نے سر پر سرخ پٹی باندھی تھی۔ دل نواز لمحے وہ تھے جب کعبے کی چھتوں پر ’’اذان بلالی‘‘ نے ضوا فشانی کی تھی۔ دل نواز لمحے وہ تھے جب عمرؓ کے مقابل ابو بکرؓ گھر کا سار ا سامان لے آئے تھے۔ دل نواز لمحے وہ تھے جب منزلوں کے راستے میں سر سید نے چندہ مانگنے کیلئے ناچنے سے بھی گریز نہ کیا تھا۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب آ پس کے اختلاف بھلا کر شملہ اور لکھنؤ کے معاہدے رقم ہوئے۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب خلافتِ عثمانیہ کو بچانے کیلئے مسلمان عورتوں نے اپنے زیورات نذر کئے تھے۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب مسلمانوں نے اپنی طاقت 14نکات پر مرکوز کی تھی۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب شیر بنگال نے قرار دادِ پاکستان کے لفظوں کو تخلیق کیا تھا۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب لٹے پٹے مہاجروں کیلئے لوگ اپنے بستر بانٹنے نکلے تھے۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب فائلیں نتھی کر نے کیلئے میرے آفیسرز نے ببو ل کے کانٹوں سے کامن پنوں کا کام لیا تھا۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب ایک نو زائیدہ مملکت بے سرو سامانی کے عالم میں بر بریت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنی تھی۔دل نواز لمحے تو وہ تھے جب خون دینے کیلئے معصوم بچوں نے پتھر کے باٹوں سے اپنا وزن پورا کیا تھا۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب 6ستمبر کوبی آر بی کے کنارے پر دشمن کا لاہور میں بھوجن کا خواب ملیا میٹ ہوا۔ دل نواز لمحے تو وہ تھے جب جیالوں نے چونڈا کے محاذ پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنے کا اقرار کیا تھا۔ دل نواز لمحہ تو وہ تھا جب راشد منہاس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کیا تھا۔
جنابِ صدر! وہ راستہ دلنواز ہے جو منزل کو جاتا ہے اور یہ مبنی بر حقیقت ہے کہ منزل سے دلنواز ہے منزل کی جستجو کیونکہ:
اے جذبہ دل اگر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کیلئے دو گام چلو ں سامنے منزل آ جائے
اس راہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں