جمہوریت ایک ناکام طرزِ حکومت ہے(مخالفت)

جمہوریت ایک ناکام طرزِ حکومت ہے(مخالفت)
اخوت و مساوات کی چوٹیوں سے ابھرا سورج جس نے جمہوریت نام پایا۔ظلم و جور، نا انصافی اور معاشرتی اونچ نیچ کے گھُپ اندھیروں میں جلی ایک روشن قندیل جس نے جاگیر دارانہ اور سفاکانہ نظامِ حکومت کے خلاف اعلانِ بغاوت کر دیا۔
’’اِنّ الباطِلَ کان زھو قا‘‘ کے پس منظر سے پھوٹا یہ اُجالا ، جس نے اُمرا کے محلوں سے روشنی چُرا کر غریبوں کی جھونپڑیوں میں پہنچائی۔ جمہوریت جس نے سلطانہ ڈاکو، رضیہ سلطانہ اور پھولن دیوی کا روپ دھار کر امیروں کی تجوریوں سے غریبوں کے آنگن میں خوشیوں کے پھول کھلائے۔جمہوریت جس نے کبھی مسندِ شاہی پہ راج کیا اور کبھی سولی پہ لٹک آئی۔ جمہوریت جس نے لکڑہا رے کے بیٹے کو ابراہیم لِنکن کا نام دیا اور کبھی اخبار بیچنے والوں سے قوموں کی نگہبا نی کرائی جمہوریت جس نے خاندانی رئیسوں کے مقابلے میں غریبوں کی آواز کو ایوانِ بالا تک پہنچنے کی سکت دی۔ جمہوریت جس نے غریب کو نوید دی کہ
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غُنچہ سے شاخیں ہیں نکلنے والی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی اُفق تابی ہے
جنابِ صدر! میں جمہوریت کو نظامِ حکومت نہیں بلکہ نظامتِ عوام سمجھتا ہوں کیونکہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی وہ قوم جس کو بر صغیر میں شودر و براہمن کے فر قوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ وہ عوام جس کو صدیوں تک بادشاہوں نے دیواروں میں چُنوایا تھا۔ جسے زرداروں نے اپنے گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندا تھا۔ جسے مہاراجوں نے اپنے ہاتھیوں کے پیروں تلے کچلوایا تھا۔وہ عوام جس کی کھوپڑیوں سے ہر جنگ کے آخر میں مینار بنتے تھے۔ وہ بھوک سے سسکتی عوام جس کی قبروں پر تاج محل کھڑے کئے گئے۔ وہ عوام جو اس لئے بیٹیاں جنم دیتی کہ بادشاہوں کی محفلوں میں انار کلیاں اور دل آرائیں بنادی جائیں۔ وہ عوام جو صرف اس لئے زندہ تھی کہ حاکمِ وقت کو اپنے لہوکی آخری بوند بھی لگان میں دے دے۔
اُسی مجبور و بے بس اور لاچار عوام کے لئے جمہوریت کا سورج بقاء کا ضامن بن کے آیا۔ ایک ایسا اُجالا بن کے آیا جس نے محکوم کو حاکم کے برابر کر دیا۔ اور آج میرے مخا لفین، وطنِ عزیز کی چند تاریک ساعتوں کا حوالہ دے کر اُسی جمہوریت کو بقا ٰ ء کا قاتل ثابت کر نا چاہتے ہیں۔جنابِ صدر میں پوچھنا چاہوں گا کہ میرے مخالفینِ جمہوریت کو کیوں قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ میرے ملک کی فضاؤں میں تو جمہوریت کا پھول کبھی کھلا ہی نہیں، اور اگر کھِلا بھی تو اُس کی خوشبو مزدور کے
آ نگن تک پہنچی ہی کب تھی۔ ہاں مگر جمہوریت کا ایک قصور ضرور ہے ، میں بھی مانتا ہوں کہ اس میں امیر ہو یا غریب ، کالا ہو کہ گورا، سر مایہ دار ہو یا مز دور، جاگیر دار ہو کہ ہاری، ان سب کا ووٹ طاقت بن کر ظالموں کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔ اگر اس قصور کو کوئی جُرم تصور کر تا ہے تو اس کی سزا بھگتنے کو سب سے پہلے میں تیار ہوں ۔ آؤ اپنی آمریت کا سب سے پہلے مجھے نشانہ بناؤ کہ میرا توایمان ہے کہ
جتنے تاریک گھر ہیں اُجالوں سے دور دور
اتنی ہی روشنی میں ستاروں سے چھین لوں
جتنے ہیں تن برہنہ، لباسوں سے بے نیاز
اتنی ہی چادریں میں، مزاروں سے چھین لوں
صدرِ محترم!
جمہوریت اجالا ہے، روشنی ہے، پیغام ہے، محبت و آشتی کا۔۔۔۔ انسانی بقاء کا وہ نظریہ ہے جس نے آقا و غلام کے فرق کو خس و خا شاک کی طرح بہا دیا۔جمہوریت وہ نظامِ حکومت ہے جس نے جاگیر دارانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔جمہوریت بقاء ہے کہ اس نے مزدورکو اُس کے حق سے روشناس کر ایا۔ جمہوریت بقاء ہے کہ اس نے برِ صغیر کے مسلمانوں کو سُکھ کا سانس دلایا۔ جموریت بقا ء ہے کہ یہ توہینِ عدالت کر نے والے حاکمِ وقت کو عدالت میں گھسیٹ لاتی ہے۔ جمہوریت بقا ء ہے کہ یہ بد عنوانی کے مرتکب نر سیما راؤ کو جیل کی کال کوٹھریوں میں دھکیل دیتی ہے۔جمہوریت بقا ء ہے کہ ایک معمولی سیکریڑی ،پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے کلنٹن کو ندامت سے سر جُھکانے پر مجبور کر دیتی ہے۔جمہوریت بقاء ہے کہ یہ غریب ہاری کو ایک سر مایہ دار حکمران سے اُس کا حق دلاتی ہے۔ جمہوریت بقا ء ہے کہ یہ بنجرزمینوں سے سونا اُگلوا تی ہے۔
جنابِ صدر! میرے مخالفین اسلام او ر اقبال کا حوالہ دے کر جمہوریت کو ناکا م طرزِ حکومت ثابت کر نے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ بقول ان کے جمہوریت اور اسلام کا تو کوئی ساتھ ہی نہیں ہے۔میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے ۔ اگر میں نے 1973کے جمہوری آئین میں اسلامی دفعات کو مجتمع ہو تے ہوئے نہ دیکھا ہوتا۔ میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے اگر اس نے زکوٰۃ کے نظام کو لاگو نہ کیا ہوتا۔میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے ، اگر اس کے آرٹیکل 31نے ملک میں لا گو ہو نے والے ہر قانون کو قر آن و سنت کے تابع نہ کیا ہوتا۔ میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے اگر اس وطنِ عزیز کے صدر اور وزیرِ اعظم کے لئے مسلمان ہو نے کی شرط کو لاگو نہ کیا ہوتا۔میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے اگر میں نے پاکستانی پارلیمنٹ کو
قادیا نیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا۔ ارے کون کافرمغربی مادر پدر آزاد جمہوریت کی بات کر تا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اسلام کی روشنی میں وہ جمہوریت آئے جو کسی اکبر کو دینِ الٰہی نافذ کر نے کا موقع نہ دے۔ ہم تو اس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو خلیفہءِ وقت کے چناؤ کے لئے مدینہ کی گلیوں میں جمع ہونے والے جمِ غفیر سے پوچھتی ہے کہ ان 6اصحاب میں سے تمھارا خلیفہ کون ہو گا۔ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو دیوارِ برلن کو گراتی ہے۔ ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو احساس دلا تی ہے کہ
میں اگر سو ختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خوددکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
ہم تواُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں،جو شاہ کے ہر کاروں کو خبر دار کر تی ہے۔
اب دیوار میں کوئی چنوا یا نہ جائے گا
اب دار پہ کوئی بدن سجایا نہ جائے گا
ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو اپنا منشور دیتی ہے کہ
امیرِ شہر سے سارا حساب لیں گے
غریبِ شہر کے بچے جوان ہو نے دو
ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو یہ عزم پیدا کر تی ہے کہ
مہرِ تاباں سے جا کے کہہ دو کہ اپنی کرنیں سنبھال رکھے
میں اپنے صحرا کے ذر ے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں۔
ہم تواُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو اعلان کرتی ہے کہ
اگلے برس ہم گلشن والے اپنا حصہ پورا لیں گے
پھولوں کو تقسیم کر یں گے کا نٹوں کو تقسیم کریں گے
ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو میرے مخالفین میں اتنا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ کہ وہ آج ایک جمہوری ملک میں سرِ عام اُسی جمہوریت کے خلاف زہر اُگلیں ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جس میں میری بقاء ہے، آپ کی بقا ہے ، پاکستان کی بقا ء ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں