سکوت سے سچ بہتر ہے

’سکوت سے سچ بہتر ہے‘‘
سچ بات کوجھوٹ کے پردوں میں نہ چھپاؤ اگر تمہیں سچائی کا علم ہو تو اس کو جان بوجھ کر اپنے تک محدود نہ رکھو۔ (القرآن)
جی ہاں جناب صدر سکوت سے سچ بہتر ہے کیونکہ سچ وہ حقیقت ہے جس کی ضوافشانی سے گلشن حیات کی رنگا رنگی ہے۔ یہ کائنات نغمہء الست کے سچ کی تعبیر میں بنی تھی اور پھر کن فیکون کی سچائی سے نبا تات، حیوانات و جود میں آئے۔ اس کائنات کی ہر اک شے بر ملا اظہار کر تی ہے کہ اس کی بنیاد سچ پر ۔پھولوں کی خوبصورتی کا سچ خوشبو کے اظہار میں لپٹ کر سکوت کے پر دوں کو چاک کر تاہے۔پرندوں کی پرواز پھڑ پھڑاہٹ کا تا ثر دیکر اس پر ور دگار لم یزل کی سچائیوں کی نقاب کشائی کرتی ہے۔بھنورے اور بلبل محبتوں کے گیتوں سے وہ سرالاپتے ہیں کہ سچ کی سچائی سکوت سے افضل قرار پاتی ہے۔ایک سچ کی سچائی کے جواب میں ہزار خو شے کھلیان سے نکلتے ہیں۔شہد کی مکھی کی لگن کی سچائی شہد میں شفا کا درس بنتی ہے۔
خدا شاہد ہے کہ بلالؓ کی سچائی کبھی سکوت نہیں بنتی احد احد کی صداؤں میں ڈھلتی ہے۔
حسینؓ کی سچائی نیزے پر چڑھ کر بھی خاموشی کے نقاب نہیں اوڑھتی ۔زینبؓ کی سچائی بھری محفل میں پکار پکار کر لوگوں کے دل پگھلاتی ہے۔ علی کی سچائی اسد اللہ کا نام پاتی ہے۔
عثمانؓ کی سچائی ذوالنورین بن جایا کر تی ہے۔ عمرؓ کی سچائی عرب عجم کی سرحدوں تک نظر آتی ہے۔قرآن کی سچائی و اعتصمو بحبل اللہ جمیعاً کی صورت لوگوں کو متوجہ کر تی ہے۔اور میرے نبی ؐ کی سچائی کبھی یا ایہا الناس، کبھی یا ایہا المومنون بن کر قیامت تک لوگوں کو پکار پکار کر کہتی ہے:
بلغو اعنی ولو آ یہ
بلغو اعنی ولو آ یہ
(پہنچا دو چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو)
جی ہاں جنابِ صدر!سچائی اظہار مانگتی ہے اور سچ بات کو سکوت کے پردوں میں چھپانا ، سچ کے قتل کے مترادف ہے۔
ارے مانا کہ یہ راستہ کڑا ہے مگر منصور کے سچ کی سچائی بازاروں میں انا الحق کے نعرے لگاتی ہے پھر کوڑے امام احمد بن حنبل کی راہ نہیں روک پاتے۔ پھر مجدد الف ثانی دین الٰہی کے خلاف علی الاعلان کلمہ حق بلند کیا کرتے ہیں۔ خلافت کے خاتمے کا سن کر مسلمان چپ نہیں سادھ لیتے بلکہ پابندیوں کے باوجود جلیا نوالہ کی تاریخیں رقم کیا کر تے ہیں۔
جنابِ صدر! سکوت کم ہمتی اور بزدلی کا استعارہ ہے ۔ ہم وہ نہیں جو ایک رخسار پر تھپڑ کے جواب میں دوسرا پیش کر دیں بلکہ ہماری زندگیوں کو سچ بول بول کر کہتا ہے کہ سکوت نہ ہماری محبت ہے نہ ہماری نفرت۔ قر ن کے بازاروں میں ’’اولیس‘‘ کی محبت سکوت کی پناہیں نہیں ڈھونڈتی۔
بلکہ اپنے سارے دندان شہید کر کے محبت کے اظہار کو نئے معنی سے نوازتی ہے۔ ہم تو وہ ہیں کہ 

دیتے ہیں اجالے میرے سجدوں کی گواہی 
کہ میں چھپ کر اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں