یک ونڈو سسٹم کا سرخ فیتہ

  سرخ فیتا کون کاٹے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ End of Redtapism
آپ نے کبھی بنک میں بل یا فیس جمع کرانے کا اعزاز حاصل کیا ہو تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ جنگلے کے اندر بیٹھا ہوا کیشئر رقم گننے کے بعد اس کا رجسڑ پر اندراج کرتا ہے اس کے کونے پر ایک دستخط کرتا ہے اور اس کو منظوری کے لئے ساتھ والی میز کی طرف بڑھا دیتا ہے، وہاں سے یہ  کاغذ مہر کے لئے ساتھ والی میز کا سفر کرتا ہے ، وہاں سے واپس کیشیر تک آتا ہے اور یوں آپ کا بل جمع ہوتا ہے، اس دائرے میں مختلف کاموں کی نوعیت کے حساب سے کرسیوں اور میزوں کا اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے اور کبھی کبھار تو گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید میرے نوٹ جعلی تھے جو اتنی دیر لگ رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد کوئی سرکاری وردی والا مجھے اٹھا لے جائے گا۔۔۔میں جب بھی بنک میں جاتا رہا کسی ہاکی میچ کی طرح پہلے ہاشمی صاحب ، پھر باجوہ صاحب اور بھر واپس ہاشمی صاحب وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ایک ایسا ہی مزیدار میچ ہماری یونیورسٹی میں فیس جمع کرانے کے موقع پر دیکھنے میں آتا تھا، فیس جمع کرانے سے پہلے فیس جمع کرانے والا فارم بنک سے حاصل کرنا ہوتا تھا کچھ اچھے ہاسٹل منشی طلبہ پر مہربانی فرماتے ہوے اس فارم کو لا کر ہاسٹل میں رکھ دیتے تھے، اس فارم پر آپ کو ایک تصدیقی مہر درکار ہوتی تھی ہاسٹل منشی کی جانب سے اور وہ کونے میں ایک چھوٹے سے دستخط کرتا تھا لیکن ٹھریئے اگر آپ کے ذمہ میس یا کینٹین کے بقایا جات ہیں تو منشی صاحب آپ کو یہی چالان فارم دیکر متعلقہ آدمی کے پاس بھیجیں گے جہاں سے آپ اس سے دستخط حاصل کریں گے کہ میں نے پیسے جمع کروادیے ہیں ، اس موقع پر بعض دلچسپ واقعات کی بھی امید کی جاسکتی ہے جیسے میرے ہاسٹل کے ساتھ والے ہاسٹل کےمیس مینجر نے ایک دفعہ فیس کے موقع پر میرا نام ہاسٹل منشی کے پاس بھیج دیا کہ اس شخص کے بقایا جات ہیں، جب میں چالان فارم پر مہر لگوانے منشی صاحب کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس پر مہر لگانے سے انکار کر دیا کہ آپ پہلے بقایا جات ادا کریں پھر آیئے گا میں نے کہا کہ میرے بقایا جات ادا شدہ ہیں اور یہ کہ میرا میس تو میرے اپنے ہاسٹل میں ہے اور اس کا ثبوت یہ لسٹ ہے جو ہمارے میس نے جاری کی ، اب ایسے معاملات کو رفع کرنا بھی ایک اسی فیس مہم کا ایڈونچر ہو سکتا ہے، خیر منشی صاحب آپ کے فیس فارم پر مہر لگا دیں تو پھر اس فارم پر ہاسٹل سپرٹینڈنٹ صآحب دستخط فرمائیں گے یہ سو فیصد ضروری نہیں کہ وہ اس وقت اسی جگہ موجود ہوں جہاں ہاسٹل کا منشی موجود ہے، اگر آپ ہاسٹل سپرٹنڈنٹ سے آٹو گراف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہال وارڈن آفس جائیں وہاں ان سے مہر تصدیق اور دستخط حاصل کریں پھر آپ فیس کلرک کے پاس جائیں جو آپ کے چالان فارم پر مہر لگائے کہ اس نے فیس درست لکھی ہے اور اس کے بعد آپ بنک میں فیس جمع کرانے کی قطار میں جگہ پا سکتے ہیں۔ اور پھر وہی بنک کا ہاکی میچ وغیرہ۔۔۔
اور اگر آپ بفضلِ خدا ڈگری کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو یونیورسٹی سے کلیئرنس کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ اوپر دی گئی تفصیلات میں ٹیوٹر، سپروائزر، سنیئر ٹیوٹر آفس، یونیورسٹی لائبریری، ڈیپارٹمنٹ لایئبریری، ڈائریکٹر ایڈوانس سٹڈیزکا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے احباب ایسی درسگاہوں سے نکلتے نکلتے ایسی کاغذی مہم جوئی کے عادی ہوتے ہیں اور خاک بازی کا یہ درس ان کے بدن میں سرایت کر چکا ہوتا ہے اور کوئی اور اس پرم پرا کو توڑنے کی کوشش کرے تو وہ اسے مساوات کے اصول کے منافی قرار دیتے ہیں۔ آپ کوئی مثال لے لیں جس میں آپ کا واسطہ سرکاری دفتر سے پڑنا ہو تو ہر جگہ پروٹوکولز کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے، ہمارے ملک میں ریڈ ٹیپ ازم کے جس سلسلہ نے سرکاری اور غیر سرکاری نظام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے کرپشن کے اکثر دروزے اسی سے نکلتے ہیں حالانکہ اتنے مراحل بنانے کا مقصد چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہو گا لیکن ماسوائے ذلت اور ضیاع وقت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا
خدارا ہاکی کے کھیل کو میدان میں ہی رہنے دیں اور اپنے آفسز کا حصہ مت بنایئں، کمپیوٹر نام کی چیز کو تعمیراتی کاموں کے لئے استعمال کریں، یونیورسٹیز اس دور میں تو کوئی سافٹ وئیر بنوالیں جس کے ذریعے صرف ایک دروازے پر اس کی کلیرنس ہو سکے، اہل یورپ نے آئیڈیاز کی چوری پر کوئی پابندی بھی نہیں لگا رکھی ، یہاں جن دو چار بنکوں میں جانے کا اتفاق ہوا سب ون ونڈو آپریشن کی بنا پر چلائے جاتے ہیں، آپ جس کاؤنٹر پر جاتے ہیں آپ کے نوے فیصد مسائل اسی کاؤنٹر پر حل کر دیے جاتے ہیں، آپ نے اکاؤنٹ کھولنا ہے تو وہی اکاؤنٹ کھولتا ہے، وہی بل جمع کرتا ہے ۔ وہی شکایات سنتا ہے اگر اسے کوئی دشواری ہے تو اپنے سینئر سے بات کرتا ہے ورنہ سارے مسائل کے لیے وہی ذمہ دار شخص ہے۔ بنک سے ہٹ کر میرا جتنے بھی اداروں سے واسطہ پڑا ہے  مثلا بلدیہ، سکول، ٹیکس آفس، پولیس، پوسٹ آفس اور دیگر ادارے اسی سسٹم کے مطابق چلتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں آپ کسی ایک مسئلے کو کسی ایک کو سنائیں تو وہ بتائے گا کہ یہ مسئلہ تو ہمارے فلاں ساتھی دیکھتیے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی دور میں دیکھتے تھے لیکن نئی حکومت نے ان سے اختیار لے لئے بڑا ظلم ہوا اور آپ کو کسی نئے دروزے کی طرف اشارہ کر دے گا، آپ بوجھل قدموں سے وہاں پہنچیں تو پتا چلے گا وہ صاحب تو آج چھٹی پر ہیں اور ان کی جگہ کوئی اور صاحب انچارج ہیں اور اگر آپ کے پاس کوئی تگڑا ریفرینس ہے تو پھر ایک ہی ونڈو سے گلِ مراد مل جاتا ہے۔ میری التماس ہے کہ خدارا قوم کو اس ہاکی میچ سے باہر نکالا جائے اور ملک کے سبھی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ون ونڈو سسٹم کو ترویج دیں تاکہ ایک شخص ذمہ داری کیساتھ ایک شخص لے مسئلے کو سنے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ذمہ دار کا پتہ ہو کہ کس کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔
لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب لوگ نیک نیتی کیساتھ وطن کے متعلق سوچیں ورنہ ہمارے مروجہ سسٹم میں تو لوگ ایسی ایک کھڑکی اٹھا کر گھر لے جائیں، پھر بھی ایک موہوم سی امید مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کی کاش ایسا ہو جائے۔۔۔کاش ایسا ہو جائے۔۔۔،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں