اشتہارِ عام۔۔نیلامِ عام

دوپٹہ زمانے کی ہوا لے اڑی، ٹی وی کے مذہبی پروگرام کچھ اہتمام کرتے ہوں گے لیکن خبروں سے لیکر میڈیا کی سجی بنی اینکرز تک کے دیدہ زیب ملبوسات، کڑہائی والے گلے، لمبی قمیضیں، یا پھر مغربی طرز لباس سے متشابہہ، چھوٹے کرتے ، جینز۔۔۔کسی گلابی گالوں والی حسینہ نے زیبِ تن کئے ہوں تو آدمی کو بھلا بھلا سا لگتا ہے۔۔موجودہ زمانے کی کسی فلم کا ڈائیلاگ تھا کہ جب شریفوں کے کپڑے اترتے ہیں تو سب سے زیادہ مزہ بھی شریفوں کو ہی آتا ہے۔۔۔۔۔۔میرے پاس اس سوال کا کوئی موثر جواب نہیں کہ ایک صدی پہلے ہندوں، سکھوں سے مسلمان ہوجانے والے برصغیر کے ان مسلمانوں کا کلچر کیا ہے۔۔۔لیکن ایک بات طے اور تسلیم ہے کہ طاقتور کلچر کمزور لوگوں کے کلچر اور بودوباش کو متاثر ضرور کرتا ہے۔۔۔یورپ کا نائٹ کلب کلچر۔۔۔جس میں شمع جلتی ہے تو پروانے اکھٹے ہو جاتے ہیں ، کڑوے مشروب اور میٹھی دوستی اس ماحول کو دوآتشہ کر دیتی ہے۔۔۔۔یہ کلچر ہندوستان میں کافی حد تک غالب آچکا ۔۔۔بڑے شہروں میں باآسانی ایسا ماحول ڈھونڈا جا سکتا ہے جس میں مغربی نائٹ لائف پوری طرح منعکس ہے۔۔۔۔اس ماحول کی چند کرنیں پاکستان کے بڑے شہروں میں جگہ بناتی نظر آتی ہیں۔۔۔لیکن میری میلی آنکھوں کو اب ٹی وی کے اشتہارات میں کچھ ان راتوں کا خمار نظر آتا ہے جس کو اپنے دیس کے لئے میرا فرسودہ ذہن ابھی تسلیم نہیں کرتا۔۔۔۔میں خود کو سمجھاتا ہوں کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور تمام شہری اپنی پسند اور ناپسند کا لباس زیبِ تن کر سکتے ہیں۔۔۔ویسے بھی ان دوپٹوں سے تو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کا سماں پیدا ہوتا ہے۔۔۔لوگوں کو برائی سے روکنے کے لئے کسی چھوٹی برائی کی ترغیب دینا بھی مناسب نہیں۔۔۔۔ابھی وارد ۔۔گلو کے اشتہار میں دوستی کی لے پر گنگنانے والے خوبصورت لوگ ناچتے گاتے ہیں تو دہشت زدہ دل میں وہم سا جنم لیتا ہے۔۔۔ایک کالج لائف کا ماحول۔۔۔دوستی کے تانوں بانوں سے گندھا ہوا مہکتا ہوا روشن ماحول۔۔۔نجانے کیوں دل میں ڈر پیدا کرتا ہے کہ یورپ کی کا لی راتوں کا سایہ کہیں ہماری تہذیب پر نہ آ پڑے۔۔۔اور تو اور سوپر بسکٹ کا اشتہار بھی مجھے عجیب سا لگتا ہے۔۔۔پارٹی کا ماحول ، شادی کا سماں اور بسکٹ اور ایک نار نازک سا پرس پتلی کمر پر کس کرِ گدے کی شان بڑھانے آتی ہے تو سارا ماحول جس تصویر کا حصہ لگتا ہے وہ تصویر میں اپنے کھر کے کمرے میں لگانے کا متحمل نہیں۔۔۔۔اور تو اور دل اتنا خوفزدہ ہے کہ ملک پیک کے اشتہار کہ خاتون بھی مجھے کوئی دیسی ماحول سے جدا سے لگی تھی ۔۔۔
پاکستان کے ایک اچھے آرکٹیکچر نے ایک خوبصورت بات کہی تھی کہ اچھی عمارت وہ ہے جو لگے کہ اسی زمین سے نکلی ہے جس پر وہ تعمیر ہے ناکہ یہ لگے کہ کہیں سے لا کر سجا دی گئی ۔۔۔۔میرے خیال میں بہت سے ٹی وی اشتہار ۔۔۔مغربی اشتہاری طریقہ واردات سے متاثر ہو کر ایسے خیالات کو تصویر کرتے ہیں جو ہمارے معاشرتی رہن سہن کیساتھ میل نہیں کھاتے۔۔۔۔داغ تو اچھے ہوتے ہیں کی تازہ کمرشل تحسن کی مستحق ہے جس میں بہن اپنے بھائی سے آٹو گراف لانے کا کہتی ہے اور بھائی گرتا پڑتا آٹوگراف لے آتا ہے ۔۔۔۔یا پھر ٹیلی نار کی یہ ہے مستقبل کا پاکستان کا اشتہار۔۔۔۔
مجھے یقین ہے تھوڑی سی محنت اور سمت کی تبدیلی سے ہم اپنے ماحول اور معاشرے کی مناسبت سے اشتہار تیار کرسکتے ہیں اور ان کے ذریعے بہت سے پیغامات لوگوں کو ازبر کرواسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں