خداوندانِ مکتب سے ۔۔۔۔۔۔

گو وہ عمر میں چھوٹا ہے لیکن میرا دوست ہے اور لاہور کے ایک پرایئویٹ میڈیکل کالج کا طالب علم ہے اس نے بتایا کہ اس کو ایک امتحان میں فیل کیا جا رہا ہے اس کی وجہ ایک دوست ہے جس نے امتحانی سوال اس کے امتحان سے پہلے ٹیکسٹ کر دیا اور وہ پکڑا گیا، اس کی خاتون استاد نے کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ لڑکے کے بھیجے جانے والے میسجز کو دیکھا اور ان سبھی لڑکوں کو بھی فیل کر دیا جن کو وہ میسج بھیجے گئے تھے۔۔۔۔۔ان دوستوں میں میرا دوست بھی شامل ہے لیکن اس کی بری قسمت یہ کہ اس کا موبائل اسی امتحان کی وجہ سے اس امتحانی مرکز میں جمع تھا کیوں وہ اس قطار میں شامل تھا جن کا امتحان ہو رہا تھا اس لئے اس کو اس میسج کا بھی پتہ نہ چلا اور اپنی تیاری کے باوجود اس کو فیل کردیا جائے گا۔۔۔۔۔ان کی استاد پروفیسر کیوں کہ ڈیپارٹمینٹ کی انچارج ہے اس لئے اس کو سمجھایا جانا بھی ممکن نہیں کیونکہ کوشش اور ثبوت کے باوجود استاد محترمہ بات سننے کو بھی تیار نہیں بلکہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ زیادہ تنگ کیا تو کالج نکالا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ گھسی پٹی کہانی ہر پروفیشنل ادارے کی ہے ۔۔۔۔درد کی ایک شدید لہر میرے بدن میں اٹھی اور وہ ساری تکلیفیں مجھے یاد آ گئی جو میری تعلیم کی تکمیل کا حصہ ہیں۔۔۔۔۔۔میں نے غصے سے کہا تم اس کے خلاف پرنسپل کے پاس جاو ۔۔۔ایک درخواست لکھو ۔۔۔۔۔۔لیکن اس کا جواب وہی تھا جو کبھی میرا تھا ۔۔۔متعلقہ پروفیسر اس کو عزت اور انا کا مسئلہ بنا لے گی اور آنے والے سارے سالوں میں اس طالب علم کو تنگ کرے گی اس لئے خاموشی میں بھلائی ہے۔۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہے جب میرا تھیسس میرے سپروائزر نے اٹھا کر پھینک دیا تھا کہ جاو جس کو مرضی لے آو تمہارا تھیسس نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔اور ہمارے ڈیپارٹمینٹ کی ایک لڑکی جس کا ڈی جی خان سے تعلق تھا کسی پروفیسر کی ہٹ دھرمی سے بنا ڈگری کئے چلی گئی تھی۔۔۔۔۔اور سب سے بڑا دکھ ارباب احمد کے گولڈ میڈل کا جس کا میڈل گولڈ سے سلور اس لئے ہوگیا کہ وہ ڈیپارٹمینٹ کے استاد سے مشکل سوال پوچھ بیٹھا تھا اور اس کو دو سو نمبر کے آخری زبانی امتحان میں اس کے اپنے ڈیپارٹمنٹ نے ڈیڑھ سو نمبر دیے جس کی پڑتال اور شکایت ہو ہی نہیں سکتی تھی اور محنت کش کا ذہین بیٹا چار سالہ دوڑ کو  چند لمحوں میں ہار گیا۔۔۔۔۔۔
یہ ہماری جامعات، درسگاہوں کا عمومی رویہ ہے کہ اپنی مرضی کے خلاف چلنے والے طالبِ علموں کو کسی نہ کسی طرح انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔حتی کہ اپنی ذاتی لڑائیاں بھی طلبا کے ناتواں کندھوں پر لڑی جاتی ہیں۔۔۔۔مستند ہے میرا فرمایا ہوا کی تعلی میں کھوئے ہوئے استاد بھول جاتے ہیں کہ وہ کس مقام پر فائز تھے۔۔۔
بہت سے پروفیسر صاحبان ڈگریوں کے حساب سے بہت اعلی قسم کی تعلیم رکھتے ہیں لیکن طالبِ علم کو مخاطب ایسے کرتے ہیں جیسے کسی تھرڈ کلاس کینٹین پر تشریف فرما ہوں۔۔۔کئی ایک تو خدائی کے اس مقام پر چلے جاتے ہیں کہ ان کی حرف آخر بات کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔۔۔۔۔میں نے شدت سے محسوس کیا ہے کہ پاکستانی طالبِ علم یورپی امریکی ماحول کے  کلاس روم میں سب سے زیادہ گھبرائے ہوئے اور ڈرے رہتے ہیں کیوں کہ وہ جس قسم کے نظام تعلیم میں پڑھ کر گئے ہوتے ہیں ان کی سوال پوچھنے کی حس کی کمر ٹوٹ چکی ہوتی ہے۔۔۔جبکہ میرے ذاتی خیال کے مطابق چائنیز طالب علموں کی سوال پوچھنے کی جرات سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
اپنی ان چند سطور کے توسط سے ان خداوندانِ مکتب سے درخواست گزار ہوں خدارا ان بچوں کو حوصلہ دیں ان کو سوال پوچھنے کی جسارت دیں، ان کو حق بات پر ڈٹنا آپ ہی سکھا سکتے ہیں۔۔۔اگر آپ ان کو خوف بانٹیں گے، ان کے فضول سوالوں پر ان کا مذاق اڑائیں گے تو کون ہے جو ان کی انگلی تھامے گا ، کون ہے جو ان کو زندگی کی تلخیوں میں حوصلہ بخشے گا۔۔۔۔۔۔۔اپنی انا کی قید سے نکل کر صرف ایک دفعہ  ہی سہی کسی طالبِ علم سے اس کی کردہ غلطی کہ وجہ تو پوچھیں لیکن خدارا شنوائی کے سارے دروازے تو مت بند کریں۔۔۔خدارا محرومیاں مت بانیٹیں۔۔۔۔۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں