احتجاج ٹائر والا وغیرہ

سڑکوں کو بند کرنے سے، ٹائر جلا دینے سے ، خود سوزی کر لینے سے، فٹ پاتھ پر لیٹ جانے سے، کسی زرداری، گیلانی یا کسی حکومتی کل پرزے کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔مجبوریوں میں مسافر ہو جانے والے والوں کی اذیتوں میں اضافے کے سوا اس مشق کا حاصل کیا ہے۔۔۔۔۔باراتوں والے تو نقصان اٹھانے کے متحمل ہوں گے لیکن وہ مریض جو احتجاج کے اژدہام میں دم توڑ جائیں گے ان کو تو یہ اعزاز بھی نہ مل پائے گا کہ ان کی بے قیمت جان بادشاہِ وقت کے پروٹوکول کی نظر ہوئی۔۔۔۔کیا ان بوسیدہ ٹائروں کا دھواں جن کو جلا کر رعایا نے احتجاج کا سماں باندھا ہے ، حاکمِ وقت کی چاے کی پیالی کے طوفان کے برابر اہمیت پا جائے گا۔۔۔یا فٹ پاتھ پر تڑپتی ، ذلت سہتی اس مخلوق کی تصاویر سے آقا کا دل ذرا نرم پڑتا ہو گا۔۔۔
اور آقا بھی وہ جو اپنے ترقیاتی کاموں پر نازاں ہوں، جن کی جمہوری قربانیوں کے طفیل ملک کو استحکام ملا ہو، جن کا ایوانِ اقتدار پر زیادہ دیر قبضہ ان کے خیال میں رعایا کے لئے باعث فخر ہو نا چاہیے۔۔۔جن کے خیال میں انکم سپورٹ کے کارڈ بٹ جانے کے بعد کوئی بھکاری نہ بچا ہو، جنہوں نے کا غذی منصوبوں پر بجلی کی لہریں بہا دی ہوں۔۔۔ان ایسے سچے حکمرانوں کے لاتعداد نیک کاموں کے بعد اندھی رعایا اگر بجلی اور گیس پر ہائے، ہائے کرے تو ایسی کم ظرف رعایا سے ان کے حکمران منہ نہ موڑیں تو اور کیا۔۔۔۔
میرے پیارے بھائیو۔
کیوں گرمی میں جان ہلکان کرتے ہو، کاہے ٹائروں کے دھوئیں سے رنگ کالا کرتے ہو، اس کھیل تماشے سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ گالیاں کسی نے کسی کو شرمندہ کرنے کے لئے بنائی تھیں۔۔۔مظلومیت اور مجبوری کے مناظر کسی نیک دل کا دل بوجھل کرتے ہوں گے۔۔۔ہمارے حکمران تو نشے کے اس عالم میں ہیں جہاں ان کو لگتا ہے کہ ان کے احسانات ان کی قربانیاں عوام کے صبر اور تکالیف سے زیادہ ہیں ۔۔وگرنہ ایسی گری پڑی قوم کا لیڈر کون بننے کو تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔جاؤ گھروں کو جاؤ۔۔۔۔بند بجلی میں اپنے کواڑ بند کر لو کہ اب یہاں کوئی نہیں ۔۔۔کوئی نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں