ڈینگی، بجلی اور حکمران

گنتی بھول چکا ہوں کہ کتنی دفعہ بجلی آتی اور جاتی ہے، زندگی کے سارے پل آن اور آف کی بھول بھلیوں میں کھوگئے ہیں۔ احباب کا خیال ہے کہ زرداری نے جو سال جیل میں گذارے ان کا بدلہ وہ پوری قوم سے لے رہا ہے، اور ساری قوم کو اس نے ان دیکھی دیواروں میں قید کر رکھا ہے۔ مرضی ہو تو چند گھنٹوں کے لئے کسی تہوار پر بجلی بحال کر دی جاتی ہے وگرنہ تو یو پی ایس بھی چارج نہیں ہو پاتے۔ گذشتہ کافی دنوں سے بجلی ، گیس کی صورتِ حال پر جو الفاظ ذہن میں آتے رہے وہ گرفتِ قلم سے باہر تھے۔۔۔۔بڑے دنوں کی تپسیا کے بعد خود کو راضی کیا ہے کہ سادہ الفاظ میں ہی سہی مذمت کر دی جائے۔ ۔۔۔۔۔ وگرنہ ان ۔۔۔۔کے بچوں کو احساس ہی نہیں کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے، (ٌخالی جگہ پر اپنی پسند کا لفظ لگائیں)۔۔۔۔ان ۔۔۔۔کے اپنے محل کرپشن کے روپوں سے ہر لمحہ روشن ہیں، دربانوں اور جی حضوروں میں الجھے ان حکمرانوں کو تاویلوں اور دلیلوں کے گورکھ دھندے سے کوئی فرصت نہیں۔ ساڑھے چار سال کی حکمرانی میں محرومی ساڑھے چار سو گنا بڑھا دی گئی۔ یو پی ایس ہمت ہارتا ہے تو سادہ مچھر بھی ڈینگی کے سفارت کا ر لگتے ہیں۔ ان گندی گلیوں میں جہاں ابھی تک سیورج سسٹم پوری طرح سے بچھ نہیں پایا، ملحقہ گھروں کے کونے کھدرے ڈینگی کی بہترین پناہ گاہیں ہوں گے۔۔۔۔ مگر قلتِ بجلی سے بھجنے والے پنکھے امید ہے کہ ڈینگی کا وار دوآتشہ کر دیں گے۔۔۔ان گنجان گلیوں سے تہہ در تہہ لاشیں گریں گی مگر ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے گی۔۔۔۔۔۔
ان کو کیا ان کے لئے تو سب اچھا ہے۔۔۔۔وہ تو اپنی آیندہ نسلوں تک کے حکمران بنا دئیے گئے۔۔۔بیٹوں کی حکمرانی کا حق تو مسلم تھا ہی اب بیٹیوں کو بھی قطار میں کھڑا کرنے لگے ہیں،۔۔۔۔۔سب کو اپنی باری کا انتظار ہے۔۔پاکستان پہ رات اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں