یومِ مجبور پاکستان میں۔۔۔۔۔۔۔

یکم مئی اٹھارہ سو چھیاسی کو شروع ہونے والی مزدور تحریک انیس سو سینتیس میں ثمر بار ہوئی اور امریکہ میں مزدور کے لئے آٹھ گھنٹے کام کا اصول منظور کیا گیا۔۔۔۔۔۔آج وہی یومِ مزدور ہے جس کا چرچا اخباروں اور ٹی وی میں ہو گا ، لیکن پاکستان کے گلی کوچوں ، گھروں، فیکٹریوں، دفاتر میں عملی طور پر کوئی ایسے قوانین موجود نہیں جس سے کسی سیٹھ، کسی سرمایہ دار کو نکیل ڈالی جا سکے۔۔۔۔۔۔روپے پیسے والی دکانوں میں کام کرنے کا تو معاملہ ہی خیر الگ ہے ، یہاں کے ماحول میں اداروں سا سیٹ اپ رکھنے والی کمپنیاں بھی کام کرنے والوں سے زیادتی سے باز نہیں آتیں۔۔۔۔۔۔بنک میں کام کرنے والے دوستوں سے پوچھیں تو کام کرنے کے اوقات نو بجے شروع ہوتے ہیں اور ختم ہونے کا وقت کوئی نہیں، ہمارے پیسٹی ساییڈز، یا ایگری کلچر کے دیگر مارکیٹینگ کے شعبہ جات سب میں ایسے ہی حالات ہیں۔۔۔۔۔بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر ہفتے کے چھ دن کام کے بعد ساتویں دن اتوار کو پلاننگ میٹنگ رکھ دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عجیب سا کلچر دفاتر میں پروان چڑھا ہوا ہے کہ جب تک سیٹھ سیٹ پر موجود ہے ، ہرکاروں کو چھٹی کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔۔۔۔مجھے ہرگز اعتراز نہیں کہ دفاتر میں دیر تک بیٹھا نہ جائے، یا کسی ایک آدھ ویک اینڈ پر کام نہ کیا جائے، ساری دینا میں لوگ وقت سے زیادہ کام بھی کرتے ہیں اور ویک اینڈ پر کام کرنا پڑ بھی جائے تو کرتے ہیں لیکن اصول یہ ہے کہ ویک  اینڈ کا معاوضہ عام دن کے معاوضہ سے دوگنا ہوتا ہے، اور اوورٹائم بھی عام تنخواہ سے کچھ زیادہ دیے جانے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔۔۔۔
ہے کوئی جو اس حق کے لئے آواز اٹھائے۔۔۔مجھے امید ہے ایسا ہونا یہاں ناممکن کی حد تک مشکل ہے، پرائیویٹ کمپنیاں تو ایسا ستم کرنا اپنا حق سمجھتی ہی ہیں ، بعض سرکاری دفاتر میں افسران بالا، ماتحتوں کی اس بات کا برا مناتے ہیں کہ جب تک وہ دفتر میں موجود تھے ، چھٹی کیونکر کی گئی۔۔کچھ سرکاری افسران تو اس روش کے عادی بھی پائے گئے ہیں کہ دفتر آتے ہی اس وقت ہیں جب چھٹی کا وقت سر پر ہو ، اور آخری گھنٹے میں ان کو ایسے ایسے ضروری کام یاد آ جاتے ہیں کہ جن کے کئے بغیر نوکری آگے چلنے کے راستے بند ہونے کا احتمال ہو تا ہے، یہ سرکاری عادت کئی  پرائیویٹ کے آفیسران بھی ماتحتوں کو تنگ کرنے کے لئے حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں۔۔
ہمارے ایک پرانے صآحب فرمایا کرتے تھے کہ نوکری کرنے کے دو اصول ہیں ، اصول نمبر ایک کہ باس جو کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے اور اصول نمبر دو یہ کہ اصول نمبر ایک پر عمل کریں۔۔۔۔۔
آرگنائزیشن میں کام کرتے ہوئے بھی کچھ صاحبان سمجھتے ہیں کہ ابھی دور غلامی ختم نہیں ہوا اور ان کے ماتحت پڑھے لکھے کام کرنے والے نہیں بلکہ کسی مال منڈی سے آئی ہوئی بھیڑ بکریاں ہیں جن کو جس کھونٹے پر وہ چاہیں گے باندھ دیں گے۔۔۔۔ہمارے سسٹم میں پروفیشنل آفیسر مشکل سے ہی ملتے ہیں یا وہ اچھے ہیں اور اتنے اچھے کہ کام کا ٹارگٹ مکمل نہیں کر پاتے ، اور سخت گیر ہیں تو اتنے کہ لوگ درست مشورہ دیتے ہوئے بھی خوفزدہ ہوں۔

ہمارے نظام روزگار میں جو سب سے زیادہ بڑی قباحت تنخواہ کے طے ہونے کیساتھ روازانہ کا وقت طے نہ ہونا ہے، یوم مئی کے حکومتی سطح پر منائے جانے سے مجھے یہ گمان گذرتا ہے کہ ایسے قوانین کاغذوں میں کہیں نہ کہیں مو جود ضرور ہوں گے، لیکن عملی سطح پر ایسا کچھ بھی کہیں بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔لیکن سوچنا یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا، کسی نہ کسی کو اس ظلم کے خلاف اٹھنا ہو گا، اور نہیں تو یہ روز کا بھتہ جو ہر پڑھا لکھا شخص جانتے بوجھتے اپنے وقت کا روزانہ بھرتا ہے اس کے خلاف ہی سہی آواز اٹھانی ہو گی۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں