شیخوپورہ حادثہ ، ناقص سلنڈر اور تمت بالاخیر

کرپشن کا یہ نوحہ ان  پانچ سکول ٹیچرز کے نام جو شیخوپورہ سے فاروق آباد جاتے گاڑی کا گیس سلنڈر پھٹ جانے سے ہوا۔۔۔۔


وہ جو ایک کیلے کا چھلکا ہم بے دھیانی میں سڑک پر اچھال دیتے ہیں جانے کس کی ٹانگ اور بازو توڑنے کا سبب ہو گا، کیونکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں سب جائز ہے، بارہا کسی شاہراہ پر ایسے دل جلوں کا نظارہ کرتا ہوں جو ایک شاپر میں سارا کباڑ گول مول کر کے پھینک دیتے ہیں اور اکثر موسم کی مناسبت سے پھلوں کے چھلکے دور تک بکھر کر ان مہربانوں کو دعائیں دیتے ہیں کہ جنہوں اتنی دور تک ان کی پذیرائی کی۔۔۔۔۔۔یہ کرپشن اور غیر ذمہ داری کی پہلی سیڑھی ہے ، جس پر ہم میں سے اکثر بارہا پاوٗں رکھ چکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب آج جو پانچ گھرانے شیخوپورہ سے فاروق آباد جاتے ہوئے گاڑی کا سلنڈر پھٹ جانے سے مسمار ہوئے ، سکول کی پانچ استانیاں جو اس حادثے کا شکار ہوگئیں، بمعہ اس معصوم بچی کے ، کہ جس کو اس جہان رنگ و بو کا بھی نظارہ کرنا تھا۔۔۔۔۔۔ان کا ذمہ دار کون ہے، وہ ڈرائیور جس کی بمشکل جان بچی، یا وہ وین کا مالک جس نے ناقص سلنڈر لگوایا، یا وہ جس نے ایسے سلنڈر کو بنوایا، یا وہ جس نے چند پیسوں کے لالچ میں سستا سلنڈر فروخت کیا۔۔۔۔کون بھرے گا ان گھرانوں کے زخم جن میں سے کسی کی ماں، بہن، یا بیٹی اس حادثے کی نذر ہوئی۔۔۔ابھی اعلان ہو گا ، کوئی ووٹ بنک کے بنکر بنانے کے لئے ان دکھی گھرانوں کے زخم پر ایک دو لاکھ کا مرہم بھی رکھ دے گا۔۔۔لیکن ابھی وہ کتنے ہیں ، جن کی جان اب اس لٹکتی تلوار کے سائے تلے ہے۔۔۔۔ہم میں سے ہر کوئی نہ سہی لیکن کوئی ہے جو ان گھروں کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔۔۔۔ہماری غیر ذمہ داری کا کوئی نہ کوئی سرا ایسے سارے واقعات کے ساتھ ضرور جڑا ہو سکتا ہے، ہم بہت ہی بے حس ہو چلے ہیں جب تک اپنے گھر کی دیوار نہ اجڑے ہم شور ہی نہیں مچاتے، یارو اب تو اٹھ بیٹھو، کرپشن اس سارے گھر کی دیواروں کو کھوکھلہ کر چلی۔۔۔۔۔وہ پانی جو ہم بند بوتلوں میں خرید لاتے ہیں ا س سے لیکر وہ جو دوائی ہم برانڈڈ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں سب میں ملاوٹ کے اثرات نہ سہی لیکن گھٹیا پن تو بڑی عام سی بات ہے۔۔۔وہ کون سے دنیا ہے جس کی ان سوداگروں کو تلاش ہے، گذشتہ دنوں پولٹری کے شعبہ سے تھوڑا واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ مرے ہوئے، چوزوں کو بنا دیکھے کہ کس بیماری سے مرے تھے دوبارہ مرغوں کی خواراک کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔۔۔یہ تو خیر دور کی کو ڑی ہے سنا ہے ساہیوال میں مردہ مرغ بیچنے والا مہربان بھی دریافت ہوا ہے۔۔۔۔حرام جانوروں کے گوشت کی آمیزش، بیمار جانوروں کا ارزاں گوشت صحت مند گوشت میں ملا کر بیچنا۔۔۔۔۔جس شعبہ ہائے زندگی کی طرف نظر دوڑائیں کرپشن اور جھوٹ کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔لیکن اس انٹروپی اور تخریب کا اختتام کیا ہو گا۔۔۔۔وہ ہیٹ ڈیتھ جو سائنس کے بقول کرہ عرض کا مقدر ہے، اس سسٹم کا انجام بھی اسی جیسا ہو گا۔۔۔۔مزید خرابی در خرابی اور بالآخر تمت بالاخیر۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وقت کے زندہ و مردہ انسانو۔۔۔۔اگر ہمیں کچھ اور دیر زندہ رہنا ہے تو ماحول کو سازگار کرنا ہو گا۔۔۔۔اس نفسا نفسی کی دوڑ میں کچھ اقدار کا دامن تھامنا ہوگا۔۔۔۔اس ڈائن کی طرح جو سات گھروں کا لہو نہیں چوستی۔۔۔۔۔اپنے بچوں، گھروں، اور زندگی کے متعلق سب شعبہ ہائے روزگار میں معیار اور پایئداری کی ذمہ داری کو اپنانا ہو گا۔۔۔وگرنہ ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں