رمضان ٹرانسمیشن اور میڈیا سے استغفار

معاف کرنا پروردگار کا کام ہے اور استغفار کرنا، معافی کا خواستگار ہونا مخلوق کا منصب ہے، ہماری ذاتی خواہشات کے تحت ۔۔۔۔مالک کسی کی معافی و تلافی کا فیصلہ کیونکر کرے، ہمارے شایاں ہی نہیں کہ اپنی تجاویز بھی اس کے حضور رکھیں کہ فلاں کو معاف کیا جانا چاہیے یا سزاوار گردانا جانا چاہیے۔
آخر ہم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے۔۔۔کس کی معافی دل سے ہے اور کس کے آنسو جھوٹے ہمیں اس کے فیصلے کا اختیار نہیں۔فیصلہ کرنے والا عادل اور منصف دلوں کے حال اور بھید اچھی طرح جانتا ہے۔۔ہم مخلوق ہوتے ہوئے اپنے گمان کو بہتر ضرور کر سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو جیسا کہا جا رہا ہے۔


چند دنوں سے رمضان ٹرانسمشن کے لئے عامر لیاقت حسین، وینا ملک اور مایا خان نامی خاتون پاکستانی ٹی وی کی زینت بننے والے ہیں۔ ان تینوں احباب کی شہرت دین کے حوالے سے بہت حد تک خراب ہے، ان کی استغفار کا معاملہ پروردگار عالم بہتر سمجھتے ہیں۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جہان کا مالک جس کو چاہے نواز دے۔۔۔ہم ایسے گناہگار بھی تو اسی کو رحمت کی امید پر جیتے ہیں تو پھر کسی اور کے لئے بدگمانی کیونکر ہو۔۔
مگر 
میڈیا مالکان، پرو
ڈیوسرز یا جو بھی لوگ اسلامی پروگرامز کی نشریات سے منسلک ہیں، اور وہ ایسی گھٹیا شہرت کے مالک افراد سے سحر اور افطار کے پروگرامز میں مصالحہ ڈالنے کا سوچ رہے ہیں ان کی ذہنی حالت، سوچ اور پس پردہ محرکات پر ضرور سوچنا چاہیے۔۔۔۔۔
کیا اہل علم، اہل دین ختم ہو چکے ہیں، کیا دین کی سمجھ صرف جناب عامر لیاقت پر مکمل ہوتی ہے۔۔۔کیا استغفار کا بہترین استعارہ صرف وینا ملک ہی ہے۔۔۔۔کیا برکات رمضان کا بہترین اظہار محترمہ مایا خان صاحبہ ہی کر سکتی ہیں۔۔۔۔کیا میڈیا ہمارے معاشرے کا چہرہ کبھی نہیں بن سکتا ، کیا لوگوں کی خواہش کی آڑ میں سبق آموز سٹیج میں ڈانس کا تڑکا لگانے والے اب ٹی وی پر آ بسے ہیں۔۔۔یا گجروں پر بننے والی فلمیں بند ہونے کے بعد وہی پروڈیوسر اب نئے چینلز پر جا نکلے ہیں جو سارے معاشرے کو اپنی گندی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔۔۔یہ کون لوگ ہیں جو مذہب کو کاروبار اور تفریح کے مقام پر لے آیے ہیں جو اپنے مصالحے کے چکر میں صرف ایک بات یاد رکھے ہوئے ہیں کہ ان کا مال بکے گا کیسے۔۔۔۔
ہاں مجھے یقین ہے کہ یہ کاروباری نوحہ گر ۔۔۔۔۔ماحول میں رنگ بھرنے کے لئے جو بن پڑا کریں گے۔۔۔۔اور خدا ان کو تھوڑی روشنی دے دے تو یہ ان پروگرامز سے خود ہی الگ ہو جائیں ورنہ کاروباری سیٹھ لوگ جنہوں نے اس سارے ڈرامے سے روپے اکھٹا کرنے ہیں۔۔۔ان کی سوچ، سمجھ کے سارے دروازے بند ہو چکے۔۔۔مجھے امید تو ہے کہ یہ پروگرام ٹی وی پر چل نہیں پائیں گے شاید اس لئے بھی کہ کم از کم میں تو ان کو نہیں دیکھوں گا۔۔۔لیکن میڈیا کا یہ گھٹیا مذاق مدتوں یاد رکھا جائے گا۔۔

1 تبصرہ:

  1. Ramzan, you are absolutely right but I am afraid making people realize these realities might be same as selling a comb to a bald person....

    Zubair Khan

    جواب دیںحذف کریں