گرین کارڈ ہولڈر پاکستانی اور پاکستان ڈے

ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح پاکستانی کوپن ہیگن میں بکھرے پڑے ہیں، ایک سے ایک بڑھ کر موتی، ہیرہ، کسی اور تار سے جڑا ہوا، کسی اور کی پازیب کا گھنگھرو، کسی اور کے تاج کا کوہِ نور، ہے۔۔۔ایک صرفِ نظر ہے جو اس دھرتی کے لئے ہے جس سے تعلق موت بھی توڑ نہیں سکتی۔۔۔خواہش، اور کوشش کے باوجود وہ لوگ بھی ناکام نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنا رنگ ڈھنگ، لباس اطوار، رہن سہن سب کچھ بدل کر دیکھ لیا لیکن وہ اس چشمِ خوباں سے چشم پوشی نہ کر پائے کہ ان کے اندر اور باہر کوئی رنگ پاکستان کے رنگوں سے رنگا ہوا ہے۔۔۔اب وہ جس چادر کے تانے میں بھی کت جائیں، جس پنجالی میں جت جائیں، ان کے بنت اور چال سے وہ رنگ اور خوشبو کو بدلنا ناممکن ہے۔۔۔۔۔صاحبان شعور کو سوچنا ہو گا کہ پہلی نسل اور دوسری نسل کے غیر ملکی کا تمغہ ماتھے پر سجائے بے شمار گورے چٹے لوگ اب اس حلقہ بگوشی کی علامت کو اتار پھینکنا چاہتے ہیں لیکن کیا کریں دیس نکالا لینے والوں کو شرف قبولیت ہی نہیں ملتا۔۔۔ان دو پانیوں کی طرح جو پانی ہیں، ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن ایک سے نظر نہیں آتے ۔۔ٹھیک اسی طرح ہم بہت سے پاکستانی اس لامحدود سمندر میں اپنے رنگ کی کچھ لہریں لئے ڈولتے پھرتے ہیں۔۔۔وہ جو اس بیکراں میں ضم ہو جانے کی خواہش کا جذبہ تھا اس کا تجربہ اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔۔یہ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ باوجود خواہش کہ وراثت کی ہیت میں تبدیلی ناممکن ہے۔۔ہم پاکستانی ہیں، اگلی نسل میں پاکستانی نژاد ہو جائیں گے۔۔۔ہم کو دیس میں کوئی ولایتیا ہی کہنے لگے لیکن  یہاں ہماری جنس کی گنتی نسلوں کے نمبروں پر ہوتی رہے گی۔۔۔۔

ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی پر رنگ اتنا چڑھ گیا ہو کہ اب اس کو سب ہرا ہرا سجھائی دیتا ہو لیکن کھلی آنکھوں سے اس بات سے انکار مشکل ہے کہ ہم ابھی تک اس محلول کا حصہ نہیں۔یا پھر یوں بھی ہے کہ ہماری مشرقی روایات  اسلام کے شیرے میں گندھ کر اور بھی غیر متزلزل ہو گئی ہیں اب ایسا دوسرا آئینہ نہ دوکانِ آئینہ ساز میں۔۔۔
یہ بات خوش آئیند ہے کہ ہمارے پاکستانی بھائیوں نے مسلسل محنت سے ان معاشروں میں بے پناہ جگہ بنائی ہے، وہ محرومی جو وہ وراثت میں لے کر آئے تھے، اس کے زخم اب بہت حد تک مندمل ہو چکے، جس غربت اور تنگدستی کا انہوں نے سامنا کیا تھا ان کے بچوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں، لیکن بقول شخصے کہ جب گھر کچے تھے تو ایمان پکے تھے۔۔۔اس عسرت میں وطن کی محبت زیادہ تھی، یا شاید اس لیے بھی کہ ان کا وطن تو تھا ہی وہی۔۔۔۔۔اب اگر آج کے دن میں یورپ میں پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد بچوں کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے ماں باپ کے وطن سے بہت الفت نہیں رکھتے۔۔۔اور وہاں کی دھول مٹی سے ان کو ویسی محبت بھی نہیں جو پہلی نسل کے پاکستانی کا خاصہ ہو سکتی تھی۔۔۔۔
اس تناظر میں اگر غور کیا جائے تو پاکستان سے محبت کے حوالے سے بننے والی سوسائٹیاں بیس سال پہلے زیادہ متحرک تھی کیونکہ پاکستان سے آنے والوں کی محبت ابھی جوبن پر تھی اور جوں جوں ایسے لوگ گرہستی میں گھرے ان کی محبت بٹتی چلی گئی۔۔وہ لوگ جو ستر کی دہائی میں ڈنمارک آئے ان کی آپس میں محبت دیدنی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ مدہم ہوتی چلی گئی۔۔۔۔اب ویسی ہی ایک اور لہر گرین کارڈ ڈنمارک کی صورت میں یہاں وارد ہوئی ہے، ویسے ہی جوان، حوصلہ مند لوگ، جو کچھ کر گذرنے کا جذبہ دل میں رکھتے ہیں۔۔۔ابھی کافی حد تک اکھٹے بھی ہیں، ابھی ان کے مسائل ایک جیسے ہیں، ابھی کچھ ڈر ایسے ہیں جو انہیں جوڑے ہوئے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ پہلی نسل کے پاکستانی ہیں اور ان کو محبت اپنے وطن کے ساتھ ذرا مختلف ہی ہو گی۔۔۔
اس سال ڈنمارک میں اکثر گرین کارڈ ہولڈرز کا تیسرا پاکستان ڈے ہو گا، اور ہم اس خواہش میں مبتلا ہیں کہ اس کو دھوم دھام سے منایا جائے، احباب کو اکھٹا کیا جائے، ایک بڑی جگہ پر ایک بڑا اجتماع ہو جہاں دنیا دیکھے کہ پاکستانی بھی ایک قوم ہے جو اپنے قومی دن کو منا نا جانتی ہے۔۔۔۔میرے احباب جو پہلے سال پاکستان ڈے پر اکھٹے ہوئے، وہ تقریبا پچیس تھے، گذشتہ سال یہ پچاس ہوئے اور اس سال ہم سو لوگوں کی امید میں ہیں۔۔۔۔پھر ایک آدھ بڑا اکٹھ ہوگا، اور احباب بچھڑنے لگیں گے، ٹھیک ایسے ہی تسبیح کے دانوں کی طرح جیسے آج کوپن ہیگن کی گلیوں میں پاکستانی بکھرے پڑے ہیں، ایک دوسرے سے گلے شکووں کے انبار لئے، اپنی توانائیوں کی سچی جھوٹی کہانیاں لئے۔۔۔۔ایک خواہش لیے سب پاکستانیوں کو پاکستان کے لئے کچھ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔
آج ہم سوچ، سمجھ، طاقت اور جذبات کے جس سنہرے موڑ پر کھڑے ہیں ہمیں آج فیصلہ کرنا کہ ہم نے اپنی کہانی کیسے لکھنی ہے۔۔۔۔مجھے تسلیم ہے کہ حالات کھٹن ہیں لیکن جب تک جوانی کی ندی میں جذبات کی لہریں خیمہ زن ہیں ہمیں اپنے وطن کی محبت کو مصلحت کی نذر نہیں کرنا۔۔۔اس دو تین سال کی محنت بھری سنجیدہ ذندگی میں پاکستان ڈے کا انعقاد ایک تازہ ہوا کی کھڑکی ہوگا۔۔۔آیے اس سال پاکستان ڈے پر مل بیٹھیں، ابھی وقت ہے کہ ہم کچھ وقت اس جذبے کے نام کر دیں جسے لوگ حب وطن سے موسوم کرتے ہیں۔۔۔آئیے کہ اپنے حصے کی شمع کو روشن کریں، آئیں چند لمحے مل بیٹھ کر وطن کی گلیوں کو یاد کریں اور اس عزم کو تازہ کریں کہ ہم سے جو بن پڑا وہ ضرور کریں گے۔۔۔۔۔

1 تبصرہ: