میرا انتخاب ۔۔۔عمران خان ؟؟؟؟؟؟

میری کرکٹ سے دل چسپی اپنی باری لینے سے زیادہ کی نہیں ہے، نہ فیلڈنگ کا شوق ہے نہ باولنگ کا بس تھوڑا شوق ہے تو کبھی موج میں ہوں تو کوئی دو چار بال کروادے اور ہم یہ دیکھ سکیں کہ گلی ڈنڈے سے تربیت یافتہ آنکھیں کرکٹ کی لین اور لینگتھ کو سمجھ سکتی ہیں کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میچ سے دل چسپی بھی اس حد تک ہے کہ پاکستان جیت جائے۔۔۔۔کوئی اور ٹیم کھیل رہی ہو، ورلڈ کپ ہو رہا ہو یا ٹی ٹونٹی بس اتنی ہی معلومات جیب میں رکھتا ہوں جس سے بات برائے بات کا پیٹ بھرا جا سکے۔ ایسے میں کھلاڑیوں کے متعلق جاننا کافی ناممکن سی بات دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔۔سنا سے عمران خان کپتان تھا تو اس کی کپتانی میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا تھا۔۔۔۔اچھی بات ہے ۔۔۔۔دل خوش ہوا ۔۔۔پاکستان کو جیتنا چاہیے۔۔۔۔۔۔لیکن بشمول عمران خان میں کسی
بھی کھلاڑی کی کھیل کی مہارت سمجھنے سے نابلد ہوں۔۔۔۔۔
رہی بات شوکت خانم کی تو اس کو بھی میں ایک اچھا کام سمجھتا ہوں،عبدالستار ایدھی ، اور اس نوعیت کے نیک کام کرنے والے انسانوں کا دل سے احترام کرتا ہوں۔۔۔ان کے باوجود میں ان کاموں کی بنیاد پر کسی کو ریاست کی ذمہ داری سونپ دینے کے فیصلے کے حق میں نہیں۔۔۔۔
میری زندگی کے بتیس سال جن حکمرانوں نے حکومت کی ان میں نواز شریف اور بے نظیر کے پہلے ادوار تک کبھی بھی سیاست، ریاست اور حکمرانوں سے دل چسپی رہی ہی نہیں۔ گھر میں آج کے دن تک سیاسی مجالس میں شرکت کو شرفاٗ کا کام نہیں سمجھا جاتا۔۔۔اس لئے وہ سیاسی وابستگی جو کسی سیاسی کارکن کو اپنی جماعت سے ہو سکتی ہے اس جو ہر سے  بھی
 محروم ہوں۔میں بہت سے لوگوں کی طرح یہ سمجھتا آیا ہوں کہ ووٹ ڈالنے سے بھی کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوتی ، اور ایک آدھ دفعہ جب ووٹ ڈالنے کا موقع آیا تو میں نے گھر میں آرام کرنا ہی مناسب سمجھا۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ آدمی کا شعور آہستہ آہستہ اندھیروں سے روشنی کی طرف مائل ہوتا ہے ، پچھلے تقریبا تین سالوں سے اپنے وطن سے باہر گذارے ہوئے ان سالوں میں اس نسخاٗ کیمیا کو کھوجتا رہا ہوں جس کے بل بوتے پر یہ دنیا کے حکمران ہیں۔۔۔۔ اور یہ بات جان کر حیرانی ہوئی کہ یہاں کا طبقہ ٗ شرفا سیاست کو ہرگز برا نہیں سمجھتا ، بلکہ سیاست اور ریاست سے متعلق تعلیم نصاب کا حصہ ہے ، انتخاب کا دن چھٹی کا دن نہیں لیکن اس کے باوجود لوگ ووٹ ڈالنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس حق کو بخوبی استعمال بھی کرتے ہیں۔
اس ادراک کے بہت سے راستے میڈیا کی آزادی سے بھی منسلک ہیں جو عوام کی یاد داشت کو دہرائی کی مشقت سے دوچار کرتا رہتا ہے ، اور ہمیں باور کرواتا ہے کہ کچھ ایسا ہے جو ہماری بھی ذمہ داری ہے۔
پیپلز پارٹی کی جیالہ نوازیاں، اور نواز شریف و ہمنوا دوستوں کی کاروباری کامیابیاں   جن کتابوں، اخباروں کا حصہ ہیں ان پر تو ابھی دھول بھی نہیں جمی۔۔۔۔لیکن پھر بھی چند پیشہ ور لکھاری ان ادوار سے خوبصورتیاں تلاش کرکے مجھ جیسے بہت سوں کو مائل بہ قائل کرنے پر جتے ہیں کہ ان کو ایک ایک باری تو اور ملنی چاہئے۔۔۔
سچ پوچھیئے تو جیسے قربانی کے گوشت سے دل بھر جاتا ہے اور آدمی دال سبزی ڈھونڈتا پھرتا ہے ایسے ہی اس اعلی قیادت ۔اور ان کی بے مثال قربانیوں کی اخباری کہانیاں سے دل یوں اکتا گیا ہے کہ جیسے یہ تو کوئی آپشن اب ہے ہی نہیں۔۔۔
میں آج تک اس جذبہ خدمت کو سمجھنے سے قاصر ہوں جو بظاہر بہت سمجھدار نظر آنے والے بے شمار انسانوں کو مصلحت کے سامنے ہاتھ باندھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔۔۔۔کیسے سالہا سال تربیت یافتہ سیاست دان نسل در نسل غلامی کو اپنی قیادت   سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔ کیا زرداری کا بیٹا، گیلانی کی اولاد، شریفوں کے بچے، چودہریوں کی میراث پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
حالانکہ یہ سارے بچے تقریبا میری عمر کے گروپ سے تعلق رکھتےہیں، لیکن ان کی شخصیات ان کی گفتگو اگر مجھے قائل کرنے سے قاصر ہیں تو پھر کس طرح خواجاوں کی خواجگی، کائرہ جی کی گفتار، اقبال کے احسن تک کو ان خاندانوں کو زیر نگیں کئے ہوئے ہے۔۔۔۔کیا ان لوگوں کے من میں کبھی سوچ نہیں آتی کہ اب ان کا تجربہ قابلیت کے اس درجہ پر ہے جہاں وہ کسی بھی مسند کو بخوبی نبھا سکتے ہیں لیکن کوئی ایسی مصلحت ہے جو ان غلام بنائے بیٹھی ہے۔۔۔جن پارٹیز میں قابلیت کی
معراج ان کو ترجمان لگا دیا جانا ہو وہاں قابل لوگ کس طرح سانس لیتے ہوں گے اس خوف سے الفاظ کی روح کانپتی ہے۔
لیکن خیر ان شیریں گفتار درباریوں کے پاس اپنی اپنی نوکری کا کوئی جواز تو ہو گا، اور ہاں یہ بھی خیال غالب ہے کہ کوئی ایسی سمت ہے جس میں ہم ابھی تک اندھے ہیں اور ان باکمال لوگوں کی دیدہ بینا وہاں تک دیکھتی ہے اور انہیں اب بھی نواز، زرداری کی صورت پاکستان کی بہتری نظر آتی ہے۔
ان لوگوں کی دلیل بھی کم و بیش مجھ جیسی ہی ہے کہ ان کو عمران خان میں کوئی لیڈر نظر نہیں آتا، بہت سے لوگ اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ کہ عمران خان یو ٹرن بہت لیتا ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ وہ بندہ بھی کیا بندہ جو اپنی شادی چلا نہ سکا ملک چلانے کا دعوی کرتا ہے، یا پھر یہ کہ یہودی لابی کا ایجنٹ ہے، یا پھر یہ اخلاقی اقدار پر پورا نہیں اترتا اور ان کے جیتے جاگتے ثبوت لوگوں کی جیبوں میں بھرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اخلاق کے اعلی معیار کی کسوٹی پر اس کو پرکھا جاتا ہے اور ظاہر ہے اس پر تو وہ پورا نہیں اترتا اور نہ وہ آئیڈیل قسم کا مسلمان ہے کہ عمر سوم ٹھہرے
لیکن میں جتنا اس کو سمجھا ہوں مجھے لگتا ہے وہ مجھ ایسا ہے، تھوڑا جذباتی ہے، اکھڑ ہے، خدا سے ڈرنے والا، عام سا مسلمان ہے جو توبہ پر یقین رکھتا ہے، وہ ایک عظیم مقرر بھی نہیں لیکن اس کے لہجے میں سچ بولتا ہے، اس کے پاس ایسی چالاکیاں نہیں کہ پرانے شعبدہ بازوں کی طرح سب کی آنکھوں میں دھول جھونک سکے،

 ۔۔ہاں میری عمر ابھی ناپختہ ہے ، میرا تجربہ ابھی تھوڑا ہے لیکن میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ میرا دل قائل ہے کہ وہ ایک مخلص آدمی ہے، وہ قابل اعتبار ہے، وہ سچ بولے گا اور انصاف سنے گا۔۔۔
میں نے کہا کہ میرے پاس کوئی اور آپشن ہی نہیں، بہت سے لوگ حکومت کے لئے بہت موزوں ہو سکتے ہیں لیکن اس دفعہ اب کے برس موزوں ترین آدمی عمران خان ہے، ، احباب اور رفقا جو اس زندگی میں کسی نہ کسی طرح میرے ساتھ جڑے ، ہیں، میرے سکول، کالج، یونیورسٹی کے ساتھی ہوں، سفر کے رفیق ہوں، میرے عزیر و اقارب ہوں، ان سب سے درخوست کرتا ہوں کہ اس دفعہ عمران خان کو موقع دیں، اس کو ایک موقع ملنا ہی چاہیے، اس سے پہلے کہ شکاری خاندانوں اور خانوادوں کے مقابل وہ ہمت ہار دے، ہمیں اس کا ساتھ دینا ہے۔۔۔ابھی یہ موج اٹھی ہے اور یہ موقع ہے۔۔۔۔۔۔ ایسے مواقع اور ایسا ۔۔بہاو روز روز نہیں آتا،،،،ہمیں اپنا پورا وزن خان کے پلڑے میں ڈالنا ہے۔۔۔۔۔اور آج میں اپنے پورے وزن کیساتھ عمران خان کو پاکستان کے لئے بہترین انتخاب سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں